ساڈا یار تھانے دار…. اتحاد پارٹی


نامعلوم نمبر سے آنے والی کال بالکل زچ کر کے رکھ دیتی ہے خاص کر جب اگلا کسی صورت ٹل نہ رہا ہو۔ کوشش یہی ہوتی کہ ایسا فون نہ سنا جائے۔ اگر کوئی زیادہ ہی بے شرم ہو جائے اور ساٹھ ستر بار فون کر بیٹھے تو سن بھی لیتا ہوں۔ ایک دن ایسی کالز کی بھرمار ہو گئی۔ فون کی منحوس آواز کا گلا گھونٹ کر سکون ہو گیا۔ دو گھنٹے بعد یاد آیا تو کسی کام سے فون اٹھایا۔ کوئی نہایت استقامت سے فونکیے جا رہا تھا۔

کال اٹینڈ کر لی۔ پہلی آواز کان میں آئی، ” اوئے چک لیا اے فون۔ مل گیا ای “ (اوئے اس نے فون اٹھا لیا۔ مل گیا ہے)۔ اور پھر آواز مجھ سے مخاطب ہوئی۔ او بھائی جی کدھر رہ گئے تھے؟ ہم بس پشاور پہنچنے والے ہیں۔ آپ کدھر ہیں؟ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کون ہے کہ وہ خود ہی بولنے لگے ”لگتا ہے آپ نے پہچانا نہیں۔ میں جھنگ سے بول رہا ہوں“۔ اور مجھے تھانیدار صاحب یاد آ گئے جن سے تعلق تب بنا تھا جب میں پیروں اور چوروں کے بارے میں ایک اسائنمنٹ کر رہا تھا۔ تھانیدار صاحب نے مدد کی تھی یاد آ گیا کہ وہ کتنی دلچسپ شخصیت ہیں۔

ان سے پوچھا سرکار کدھر پھر رہے ہیں؟ تو وہ بولے ”گل سن۔ نہ کوئی مذاق کرنا۔ نہ لطیفہ سنانا۔ بس تیار ہو کر بیٹھ جا۔ اپنا پتہ بتا اور میں بس آ رہا ہوں۔ میرے ساتھ درے چل“۔ تھوڑی دیر بعد تھانیدار صاحب ایک مہران گاڑی میں لدے ہوئے ہمارے گھر پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ دو عدد سپاہی اور تین عدد جانگلی ( پنجاب کے لوکل باشندوں کو جانگلی کہا جاتا ہے، کمال لوگ ہیں یہ بھی دھرتی کے اصل باشندے، پیارے اور سر پھرے لوگ)۔

تھانیدار صاحب نے کہا درے جانا ہے اور یہ سب بھی ہوں گے۔ میں نے کہا اس جلوس کی ضرورت نہیں ہے ان کا کیا کرنا ہے؟ انہیں آرام کرنے دیں۔ ہم دونوں چلتے ہیں۔ تو وہ بولے یار مسئلہ سیریس ہے۔ ان سے پوچھا کہ کتنا سیریس ہے؟ اگر تو وہاں جنگ کرنی ہے تو ہم جتنے بھی ہوں، مار ہی کھائیں گے۔ کوئی جعلی ڈگری بنانی ہے یا کوئی اسلحہ خریدنا ہے تو ہم دو ہی کافی ہیں۔

تھانیدار صاحب کو سمجھ آ گئی۔ بولے چل فیر چلئے۔ چائے انہوں نے زہر مار کی اور ہم روانہ ہو گئے۔ ان سے راستے میں پوچھا کہ کیا ہوا؟ ایسی کیا ایمرجنسی تھی؟ اتنا کیا سیریس مسئلہ ہے۔ تھانیدار صاحب جو خود بھی بڑے فخر سے اپنا تعارف ”اسی جانگلی ہاں“ کہہ کر کراتے ہیں۔ گویا ہوئے کہ ”انہاں جانگلیاں دا ستیاناس۔ رات ساڈی چوکی پر آ کر ہمارا سرکاری اسلحہ چک کر لے گئے“۔

میں نے کہا تو آپ ان پر ہاتھ ہولا رکھا کریں۔ ”ہتھ ہولا ہی تھا بس یہ ڈنگر کھولنے سے ٹلتے نہیں ہیں۔ ہم بھی ان کو کچھ نہ کہیں۔ میں خود بھی جانگلی ہوں۔ تمھیں تو پتہ ہے کہ مج گاں کھولنے کا (مویشی چوری کرنے) جو سواد ہے وہ جہاز اڑانے میں بھی نہیں، نہ موٹر سائیکل چلانے میں ہے۔ میں تو خود پولیس میں آنے کے بعد اب اپنے پنڈ جاتا ہوں تو رات تیر کر دریا پار ڈنگر کھولنے چلا جاتا ہوں، تم کبھی چلنا میرے ساتھ، مزہ آئے گا“۔ یہ سن کر انہیں کہا سرکار معافی دے دیں مجھے نہ تیرنا آتا ہے نہ بھینسوں سے میرے تعلقات اچھے ہیں۔

تھانیدار صاحب میرا جواب سن کر ملول ہوئے اور سیدھا حملہ میری قوم قبیلے پر کیا کہ تم لوگوں میں کوئی جنا (مرد) جمیا ای نہیں۔ کتھوں آ گئے ساڈے سر تے ( کیا عذاب اترا ہے ہمارے سر پر۔ )۔ ان کے حملے کو نظر انداز کر کے پوچھا کہ تنگ کیوں کیا اتنا کہ جانگلی آپ کا اسلحہ ہی اٹھا کر لے گئے یہ سن کر تھانیدار صاحب بولے یار ادھر جھنگ تنظیموں کے رولے ہیں۔ یہ مج گاں والا چکر بھی شیعہ سنی فساد بن جاتا ہے۔ اس لئے دونوں گھروں کو پورا رکھنے کو حساب برابر رکھنا پڑتا ہے اور ہمیں سختی کرنی پڑتی ہے۔

اب جانگلیوں کو لگا کہ ان سے زیادتی ہو گئی ہے اور ہم ان کی مخالف پارٹی کا زیادہ ساتھ دے رہے ہیں تو رات ہماری چوکی سے اسلحہ لے گئے۔ کنجراں نے میرا وی حیا نہیں کیتا کہ ان کی برادری کا ہوں۔ ہمارے ڈی ایس پی صاحب اسی چوکی پر فنکشن (مجرا) کرتے ہیں رات کو۔ آدھی رات کو آ کر ہماری رائفلیں بھی اٹھائیں اور ساتھ ڈی ایس پی صاحب کا پستول اٹھا بھی لے گئے۔ جاتے ہوئے کریکر بھی پھینکے۔ فنکشن بھی خراب کیا اور ساتھ اوپر شکایت بھی لگا دی کہ ان کا اسلحہ چوری ہو گیا ہے۔

افسران اب انسپکشن کو آ رہے ہیں ہماری۔ اب بکواس نہ کر۔ سپیڈ پکڑ اور پہنچنے والی بات کر۔ ہم درے پہنچ گئے۔ وہاں تھانیدار صاحب نے اپنے ڈی ایس پی کے ایک بہادرانہ پولیس مقابلے کی کہانی سنائی جس میں کئی ڈکیت مرے اور اس کبڈی میں سرکاری اسلحہ بھی دریا چناب میں جا گرا۔ سرکار کیونکہ نیکوکاروں کی ہے اس لئے اب احتساب کے ڈر سے وہ اسلحہ اب پورا کرنا ہے۔

درے کے ملک صاحب نے بہت پیار سے ساری کہانی سنی اور اس کے بعد جو تبصرہ کیا وہ یہ تھا۔ داسے خکاری چرتا دغو نہ ٹوپک ہمم تلی دی او خر قدرا وال ہمم دغو خوڑلے دے۔ اس کا آسان ترجمہ یہ تھا کہ ”لگتا ہے انہوں نے صرف اسلحہ نہیں گنوایا۔ اس کے علاوہ کسے کھوتے کی طرح کٹ بھی کھائی ہے“۔ ملک صاحبان صدیوں سے یہی کاروبار کر رہے ہیں ان کو کچھ نہ بھی بتائیں تو وہ اصل بات تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ سودا کر کے ان پر نمبر ڈلوا کر جب تھانیدار صاھب ہمارے ساتھ درہ سے روانہ ہوئے تو انہوں نے حکم کیا کہ پشاور کی بجائے منہ ول کوہاٹ کیا جائے ان سے اس سائنس کی وجہ پوچھی تو پہلے ایک ٹھنڈی سانس لی اور اپنی برادری کو یاد کرتے ہوئے بولے پورے مہینے کی کمائی گل کر دی، انہاں کنجراں نے۔

پشاور کی بجائے کوہاٹ مڑنے کے خفیہ جنگی منصوبے کی تفصیل بھی انہوں نے یہ بتائی کہ یہاں دکاندار مخبری کر کے پھڑا بھی دیتے ہیں۔ اس دوران ڈی ایس پی صاحب کو فون کر کے تسلی بھی دی کہ سر فکر نہ کرو۔ بالکل ویسی ہی پستول اور رائفلیں مل گئی ہیں اور میں بس آیا۔

بلاوجہ لمبا چکر کاٹ کر جب پشاور کی طرف روانہ ہوئے تو صوبائی حدود شروع ہوتے ہی پولیس نے روک لیا۔ تھانیدار صاحب نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ ادھر کچھ مجرموں کے بارے میں پتہ کرنے آئے تھے غیر سرکاری طور پر۔ انسپکٹر صاحب نے پھر پشتو کی مار دی جو مجھے ہی محسوس ہوئی۔ یار دوی منگ ہمم شرمئی ( یہ ہمیں بھی شرمندہ کرتے ہیں)۔ بیا چرتا پہ چہ زان۔ دے یعنی پھر کہیں اپنی عزت لٹوائی ہے۔

گھر کی جانب رواں دواں تھے تو تھانیدار صاحب نے کہا یار بس اب ہم نکلیں گے۔ تیری مہربانی اور فون کر کے اپنی گاڑی اور جوان رنگ روڈ پر ہی منگوا لئے۔ میں نے کہا مہمانوں کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔ کہنے لگے یار توں چول تے نہیں۔ اے شکلوں مہمان لگدے نئیں؟ (یار تم نرے چونچ ہو۔ یہ لوگ شکل سے مہمان لگتے ہیں؟ ) رات ریڈ میں پکڑا تھا۔ ان کو جوا کھیلتے ہوئے۔ گڈی ساڈے کول کوئی نہیں تھی۔ پیسے بھی نہیں تھے۔ کجھ پیسے تو نقد ہی مل گئے اور باقی انہیں پشاور کا دورہ فائنانس کرنے پر چھوڑ دینے کی گل مکا کر وہاں سے لائے ہیں۔

اب گھر جا کر چیک کر لینا کوئی شے گھٹ ود ہوئے تو شرمانا نہیں بتا دینا۔ میں ان کی ایسی تیسی کر دوں گا۔
اس کہانی کو سچ سمجھنے والا بھی اپنی ذمہ داری پر ہی سچ سمجھے۔
Feb 14، 2016

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments