ویلنٹائن ڈے اور بچپن کی محبت


میرے بچپن کا ناسٹیلجیا، میرا بچپن کا دوست۔ ہمارے پڑوس میں لگا پیپل کا پیڑ جس کا زیادہ حصہ ہمارے گھر کے اوپر جھکا ہوا تھا۔ اس کا گھیر اتنا بڑا تھا کہ کسی عام درخت کے کوئی پندرہ تنے اس میں سما جاتے۔ اور شاخیں عام درختوں کے تنوں جتنی موٹی۔ اتنا بلندوبالا کہ ہمارے گھر کی چھت سے کوئی پندرہ فٹ اونچا۔ بارعب۔ باوقار۔

جانے کتنا پرانا تھا۔ ہماری دادی جی بتاتی تھیں کہ ان کی والدہ اس پر جھولا جھولا کرتی تھیں۔

عجیب صوفی سا درخت تھا۔ جب پتے جھڑنے کا موسم ہوتا تب بھی اس کی شاخوں پر ہرے عنابی پتے پھوٹ رہے ہوتے۔

اکثر پڑوسیوں کے بچے ہماری چھت پہ آ جاتے۔ ہم پیپل کے پتے توڑتے۔ دو پتوں کو آپس میں گانٹھ دیتے۔ بیچ میں سوراخ کر کے عینک بنا کے پہنتے اور خوب خوش ہوتے۔

کبھی اس کے ننھے ننھے ہرے عنابی پتوں کو کاپی میں بنی ہوئی ڈرائنگ کے ساتھ جوڑا جاتا۔ گھاس اور پھول ٹانکے جاتے اور کولاج بنا لیا جاتا۔

قسم قسم کے پرندوں کا گھر تھا وہ۔ رنگ برنگی چڑیاں، طوطے، کوے، چیلیں،گدھ، فاختہ، بیا، کوئل۔
میں گرمیوں کی دوپہر میں کوئی کتاب رسالہ ساتھ لئے چھت پر چلی جاتی اور اس کی مہربان چھاؤں میں بیٹھ کے پڑھتی رہتی۔ مجھے یہ چیز

اکثر حیران کرتی کہ چاروں طرف تپتی دوپہر مگر اس کی چھاؤں ٹھنڈی اور سکون بخش ہوتی۔ اس کی شاخوں سے اکثر موٹے موٹے مکوڑے گرنے لگتے مگر اس کی چھاؤں میں بیٹھے ہوئے مجھے ان سے ذرا ڈر نہ لگتا۔

کیا کچھ نہیں پڑھا اس کی آغوش جیسی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کے۔ کبھی سکول کا کام کیا اور کبھی کہانیوں کی کتابیں۔ بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، نونہال، تعلیم وتربیت، آنکھ مچولی، ٹارزن، اشتیاق احمد، مظہر کلیم، ابنِ صفی، سپنس، جاسوسی ڈائجسٹ، سب رنگ، نئے افق اور جانے کیا کیا۔ کبھی میں پڑھنا چھوڑ کر اس سے باتیں کرنے لگتی۔ مجھے لگتا وہ میری باتیں سنتا بھی ہے اور جواب بھی دیتا ہے۔
اس کے نیچے کھیل بھی کھیلے جاتے۔ شٹاپو، لوڈو، کیرم، مناپلی وغیرہ۔

جب میں آٹھویں کلاس میں پہنچی تو وہ خبر سنی جو میں کبھی سننا نہ چاہتی تھی۔ میرے پیپل کو کاٹنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اور یہ فیصلہ صرف اس گھر کا نہ تھا جو اس کی قسمت کا مالک بن بیٹھا تھا بلکہ پورے محلے کا تھا۔ ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ اس گھر والوں کو پیسوں کی ضرورت ہے۔

محلے کی آنٹیوں نے پیپل سے منسوب عجیب داستانیں سنانا شروع کر دیں جو ثابت کرتی تھیں کہ یہ پیپل منحوس ہے۔ بھلا اتنا مہربان درخت کیسے منحوس ہو سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ شام کو جب آندھی چلتی ہے تو اس کے جھومتے پتوں اور شاخوں کی آواز بہت ڈراؤنی لگتی ہے۔ جیسے بدروحیں مل کر چیخ رہی ہوں۔ مجھے کبھی آندھی میں اسکی آواز ڈراؤنی نہ لگی۔ صرف پراسرار لگتی۔ بے پناہ کشش لئے ہوئے۔

امی کا کہنا تھا کہ سارا سال اس کے پتے گرتے رہتے ہیں میں سمیٹتے سمیٹتے تھک جاتی ہوں۔ اس کا کٹ جانا ہی بہتر ہے۔
میں نے کسی سے کچھ نہ کہا۔ مگر چھپ چھپ کے خوب آنسو بہائے۔ مجھے لگتا جیسے میرے کسی پیارے کے قتل کا فتویٰ صادر کر دیا گیا ہو۔

پھر پیپل کاٹنے والے آ گئے۔ انھوں نے اسے کاٹنا شروع کر دیا۔ ایک بڑی سی شاخ ہمارے گھر کی بیرونی دیوار پر گری اور اس میں ایک لکیر دوڑ گئی۔ مجھے کمینی سی خوشی محسوس ہوئی۔

میرا معمول بن گیا کہ جتنے دن پیڑ کٹتا رہا میں سکول سے واپسی پہ خالہ کے گھر چلی جاتی۔ یہ منظر دیکھنے کا یارا نہ تھا۔

پھر اس کے حصے بخرے کر کے اسے بیچ دیا گیا۔ میرا بچپن کا ساتھی مجھ سے بچھڑ گیا۔ سینکڑوں پرندے بے گھر ہو گئے۔ میرا پیارا دوست، جس نے صرف مجھے دیا ہی دیا تھا اور بدلے میں کبھی کچھ نہ مانگا۔

اس وقت اس کے لئے میں نے چند شعر کہے جن میں سے ایک ہی یاد رہ گیا۔

چند پیسوں کی خاطر جس کو کاٹا اور پھر بیچ دیا

اس پیپل کی ہر اک ڈال پہ کتنے پنچھی رہتے تھے

اتنے برس گزر گئے۔ مگر آج بھی گاؤں کے کسی نہ کسی گھر میں کچی زمین پر پیپل کا ننھا سا پودا سر اٹھا لیتا ہے اور احساس دلاتا ہے کہ میں ابھی زندہ ہوں۔

آج محبت کا دن ہے۔ اور ضروری نہیں اسے ایک خاص محبت کے حوالے سے منایا جائے۔ محبت تو محبت ہوتی ہے۔ چاہے جس شکل میں ہو، جس رنگ میں ہو، جس سے بھی ہو۔ میرا ویلنٹائن ڈے میری بچپن کی محبت کے نام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments