کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے!


\"husnainحضرت جون ایلیا فرما گئے،

کتنی دل کش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

موت اٹل ہے

مرنے سے بڑی حقیقت بھی کوئی نہیں

پھر بھی، اگر سوچا جائے تو واقعی اس سے زیادہ ستم کوئی نہیں کہ موت معین ہے

یعنی ہر چیز مر جائے گی؟ کمال ہے!

گلاب کا پھول، مرجھاتا ہے

خوب صورت مور کے پر تک جھڑ جاتے ہیں

اور وہ درختوں کے پتے، خزاں کے آتے ہی زمین کا رخ کرتے ہیں

شیر کی ایال کے بال وقت کے ساتھ ساتھ کم ہو جاتے ہیں

سورج مکھی بھی تیسرے دن سر جھکا لیتا ہے

مکئی کی لہلہاتی فصلیں خود اپنا وزن نہیں سہار پاتیں

مرغے کے رنگا رنگ پر بڑھاپا آتے آتے اپنی کشش کھو دیتے ہیں

اچھے سے اچھا سیب پانچ روز بعد سکڑ جاتا ہے

اور تو اور، موتیا، جو کیسی عمدہ تخلیق ہے وہ بھی آدھے دن میں کملا جاتا ہے

چنبیلی کا پھول، نی چنبے دئیے بند کلیے، جیسے گانے کی وجہ تسمیہ ، وہ بھی وقت کی مار نہیں سہہ پاتا

ڈہلیا کا اتنا بڑا اور ایسا کمال کا پھول، کئی دن کھلا رہتا ہے، آخر نئی کلیوں کو جگہ دیتا ہے

بوڑھا تو دلیپ کمار بھی ہوتا ہے

چاندی گلزار کے بالوں کو بھی نہیں بخشتی

وحیدہ رحمان، ہیلن، سادھنا، خدا مجھ پر رحم کرے، یہ بھی بوڑھی ہو جاتی ہیں

وقت ناظم حکمت، نزار توفیق قبانی، محمود درویش، رسول حمزہ توف، احمد شاملو، سب کو کھا جاتا ہے

اور میں

میں ہر روز اپنی داڑھی میں دس نئے سفید بال دیکھتا ہوں، وقت تو کبھی بھی آ سکتا ہے

مگر

مجھے ایک بات کی تسلی ہے، میں مطمئن ہوں

جیسے گلاب کی خوشبو ہمارے مشام جاں کو ہمیشہ معطر رکھتی ہے

جیسے مور کے پر ہماری کتابوں میں ہمارے مرنے تک محفوظ رہتے ہیں

جیسے درختوں کے پتے مرجھا کر بھی اپنے جیسوں کی خوراک (کھاد) بن جاتے ہیں

جیسے شیر اپنا قبیلہ بہرحال بڑھا کر جاتا ہے

جیسے سورج مکھی ان گنت بیج تحفے میں دے کر جاتا ہے

جیسے ایک مکئی سے کتنے ہی نئے پودے وجود میں آتے ہیں

جیسے دلیپ کمار آنے والی نسلوں کے لیے ادارہ ہوتا ہے

جیسے گلزار دلوں کا حکم راں بن جاتا ہے

جیسے وحیدہ رحمان، ہیلن اور سادھنا کے نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں

جیسے ناظم حکمت، نزار توفیق قبانی، محمود درویش، رسول حمزہ توف، احمد شاملو کی سوچ زندہ ہے

ویسے ہی

جب میری داڑھی اور میرے سر کے بال (اگر ہوئے) مکمل سفید ہوں گے

میں تل چاولے کی جگہ بابا بگلوس بن چکا ہوں گا

میرے ماتھے پر مستقل تین لکیریں ہوں گی

میری آنکھوں کے نیچے حلقے اور میرے کان بھی کچھ عجیب سے لمبے ہو چکے ہوں گے

میرے کندھے سکڑ گئے ہوں گے

میری ہڈیاں جو بچپن سے درد میں ہی رہیں، مزید درد سہنے کی عادت میں ہوں گی

میرا پیٹ کچھ مزید آگے ہو گا

اور میں مجموعی طور پر ایک پیر فرتوت ہوں گا

تو میں سکون سے مر جاوں گا

تب تک میں اور میرے ساتھی محبت کا اتنا پرچار کر چکے ہوں گے

کہ ہم سکون سے مر جائیں گے

ہمیں معلوم ہو گا کہ ہماری پھیلائی ہوئی محبت

ہمارے ہر پڑھنے والے میں سرایت کر چکی ہے

اور میں تو اس امید کے ساتھ بھی سکون سے مروں گا

کہ کسی ایک مخصوص دن کے بجائے

میرے وطن میں ہر نیا دن چاہتوں کا دن ہو گا، پیار کا دن ہو گا، محبت کا دن ہو گا

ہر نیا دن امن کا ہو گا

ہر نیا دن خوشی کا ہو گا

اور یقیناً میری بیٹی ان دنوں میں وہ سب کچھ نہیں دیکھے گی

جو میں اب ہر روز دیکھتا ہوں

جو میں اسے کبھی نہیں دکھانا چاہتا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
12 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments