شام کی جنگ ….اعصاب کا امتحان


\"mujahidشام کی خانہ جنگی کا اختتام آئندہ چند ہفتوں یا مہینوں میں ممکن ہو سکتا ہے لیکن ترکی اور سعودی عرب فی الوقت جس رویہ اور حکمت عملی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ پورے خطے اور دنیا کو ایک خطرناک جنگ اور نہ ختم ہونے والے تصادم کی طرف دھکیل بھی سکتی ہے۔ اس بات کا انحصار اب امریکہ پر ہے کہ وہ کس حد تک ترکی کو شام میں مداخلت سے باز رکھتے ہوئے روس کے ساتھ براہ راست تصادم کا راستہ روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت امریکہ اور روس ہی دو ایسی طاقتیں ہیں جو شام کی جنگ کو ٹھنڈا کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یورپ کے دوسرے ملک جو دمشق میں بشار الاسد کی حکومت ختم کروانے کی سعودی۔ ترکی خواہش میں شریک رہے ہیں، اب علاقائی حکومتوں پر دبا? ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اگرچہ فرانس کی حکومت نے ایک بیان میں ترکی کو شام کے علاقوں میں دمشق نواز کرد فورسز پی وائی ڈی پر حملے بند کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس دوران سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے دعویٰ کیا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت ختم ہو کر رہے گی۔ اگر سیاسی مذاکرات کے ذریعے یہ معاملہ حل نہ ہو¿ا تو انہیں طاقت کے بل پر اقتدار سے علیحدہ کیا جائے گا۔

حیرت انگیز طور پر یہ بیان زمینی حقائق کے برعکس صورتحال بتانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جمعہ کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور روسی وزیر خارجہ سرگی لاوروف نے میونخ میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ شام میں جنگ بندی کے لئے کوششوں کو تیز کیا جائے گا اور مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے جنگ زدہ شہریوں کو امداد فراہم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ اسی عزم کا اظہار آج صدر باراک اوباما اور صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو میں بھی کیا گیا ہے۔ دونوں لیڈروں نے جمعہ کو شام میں جنگ بندی کے حوال سے معاہدہ پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ اگرچہ ستمبر میں شام میں روسی مداخلت کے وقت امریکہ نے یہ قرار دیا تھا کہ روس ایک گرداب میں پھنس رہا ہے۔ وہ اس جنگ کا فریق تو بن رہا ہے لیکن اسے اس میں سے نکلنے کا راستہ نہیں ملے گا۔ تاہم ان چند مہینوں میں روس کی فضائی کارروائی اور شامی افواج کی فوجی پیش قدمی نے ثابت کیا ہے کہ امریکہ کا اندازہ غلط تھا اور ماسکو شام میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اور تمام اہم مغربی ملکوں کے لیڈر اب اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ روس ایک اہم عالمی قوت کے طور پر سامنے آیا ہے اور شام میں جنگ کا خاتمہ روس کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ البتہ سعودی عرب اور ترکی اس سچائی کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ یہ دونوں ملک مل کر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو شام میں روس کے خلاف محاذ آرائی پر آمادہ کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ ترکی اور سعودی عرب کے اگرچہ شام کی جنگ میں عزائم ایک دوسرے کے برعکس رہے ہیں لیکن ان دونوں نے مل کر فری سیرین آرمی کو بشار الاسد کو شکست دینے کے لئے استوار اور مستحکم کیا تھا۔ اب وہ بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ شام کی فوج نے روسی فضائی تعاون سے اپوزیشن فورسز کے زیر تسلط شہر حلب کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ صدر بشار الاسد نے واضح کیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر پورے ملک پر اپنا کنٹرول بحال کر کے رہیں گے۔

حلب میں بشار الاسد حکومت کا مقابلہ کرنے والی اپوزیشن کی شکست اب قریب نظر آ رہی ہے۔ سعودی عرب اور ترکی کے لئے شامی افواج کی پیش قدمی اس علاقے میں ان کے عزائم کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت برقرار رہنے سے روس اور ایران کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا اور اسے اپنے قرب میں ایک ایسے دشمن کا سامنا کرنا ہو گا جو عرب اور اسلامی دنیا میں اس کی قیادت کو چیلنج کر سکے گا۔ اسی طرح ترکی شامی اپوزیشن فورسز کے ذریعے شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم کروا کے کسی عرب میں اپنے پا?ں جمانے کا خواہشمند ہے۔ روسی مداخلت کے بعد شامی افواج کے قوت پکڑنے سے اس خواب کا بھی شیرازہ بکھررہا ہے۔ بعض مبصرین کے نزدیک ترکی کے جاہ پسند صدر طیب اردگان دراصل خلافت عثمانیہ کی شان و شوکت بحال کرنے کے لئے شام کی طرف پیش قدمی اور کسی عرب ملک میں اپنا اثر و رسوخ میں اضافہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ اسی لئے یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اردگان کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی 2014 میں شام و عراق میں خلافت کا اعلان کرنے والی دولت اسلامیہ کو قوت پکڑنے اور دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود مستحکم ہونے کا موقع ملا تھا۔ روس کی طرف سے دولت اسلامیہ اور ترکی کے روابط اور تعاون کے ثبوت فراہم کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ترکی بھی سعودی عرب کی طرح اس عالمی اتحاد کا حصہ ہے جو ڈیڑھ برس کسی خاص کامیابی کے بغیر داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرتا رہا ہے۔ درحقیقت ترکی نے اس جنگ میں عملی حصہ لینے کا فیصلہ بھی گزشتہ گرمیوں میں اس وقت کیا تھا جب ایک سرحدی شہر سورچ میں نوجوانوں کے ایک اجتماع پر حملہ کر کے داعش نے 33 ترک نوجوانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

سعودی عرب نے شام میں بشار الاسد کی حکومت سے لڑنے والے گروہوں کی پسپائی کو دیکھتے ہوئے ترکی سے راہ و رسم بڑھائے ہیں اور اب سعودی طیارے ترکی میں بھیجنے اور وہاں سے دولت اسلامیہ پر حملے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ شام میں داعش کو شکست دینے کے لئے زمینی افواج بھیجنے کے لئے تیار ہے تاہم اس نے واضح کیا تھا کہ یہ قدم اسی وقت اٹھایا جائے گا جب امریکہ کی قیادت میں بننے والا اتحاد یہ فیصلہ کرے گا۔ البتہ اب سعودی عرب ترکی کے ساتھ مل کر شام پر حملہ کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے اور اس مقصد کے لئے فوج فراہم کرنے کے لئے بھی تیار ہے۔ ترکی نے پیش بندی کے طور پر گزشتہ دو روز سے شامی کردوں کی سرحدی علاقوں میں کامیابیوں کو روکنے کے لئے بمباری کی ہے۔ شام نے ان حملوں کی اقوام متحدہ میں شکایت کی ہے۔ عالمی مسلمہ اصولوں کے مطابق کسی ملک کو شام میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ کیونکہ بشار الاسد کی حکومت کو بہرصورت شام کی جائز حکومت تسلیم کیا جاتا ہے۔ عالمی اتحاد البتہ شام میں قوت پکڑنے والے دہشت گرد گروہوں اور خاص طور سے داعش کے خلاف کارروائی کرتا رہا ہے۔ ترکی اور سعودی عرب بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ داعش کے خلاف زمینی کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس بارے میں کل میونخ میں شام کے حوالے سے ختم ہونے والی سکیورٹی کانفرنس کے بعد ترک وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو نے کہا کہ ترکی اور سعودی عرب شام میں فوج کشی کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ زمینی کارروائی شام کے اسد نواز کرد گروہوں کے خلاف ہوتی ہے تو یہ براہ راست روس کے ساتھ تصادم کی صورت پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ ترک حکومت شامی کردوں کو سرحدی علاقوں میں ان تمام پوزیشنز کو چھوڑنے کے لئے کہہ رہی ہے جن پر انہوں نے حال ہی میں قبضہ کیا ہے۔ ان میں سرحدی قصبے اعزاز کا ایک ہوائی اڈہ بھی شامل ہے۔ کرد تنظیم پی وائی ڈی نے واضح کیا ہے کہ ترکی کو شامی علاقے میں کارروائی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ترکی سعودی عرب کے ساتھ مل کر فضائی کارروائی کے بعد شام میں کرد علاقوں پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس حملہ کی صورت میں ترکی روس کو براہ راست چیلنج کرے گا۔ روس یہ واضح کر چکا ہے کہ شام میں کسی ملک کی زمینی مداخلت کی صورت میں جنگ وسعت اختیار کرے گی اور وہ اس کی اجازت نہیں دے گا۔ امریکہ اور یورپی ملک بھی ترک فوج کی اس عاقبت نااندیشانہ حکمت عملی کے مضمرات سے آگاہ ہیں۔ سعودی عرب اپنے علاقائی سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے ترکی کا ساتھ دے رہا ہے۔ بصورت دیگر اگر شام پر فوج کشی کی نوبت آتی ہے تو ترک فوج ہی یہ لڑائی لڑے گی اور اس کے اخراجات سعودی عرب کو برداشت کرنا پڑیں گے۔ سیاسی مشکلات میں گھرے ترکی اور اقتصادی مسائل کا شکار سعودی عرب کیا تن تنہا یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔ اگر روس نے ترکی کی شام میں پیش قدمی روکنے کے لئے فوجی مزاحمت کی تو کیا نیٹو اتحاد ترکی کی مدد کرنے پر مجبور ہو گا۔ ترکی اس فوجی اتحاد کا رکن ہے لیکن گزشتہ نومبر میں ترکی نے جب روس کا طیارہ گرایا تھا تو نیٹو نے کھل کر ترکی کا ساتھ دینے سے انکار کیا تھا۔

اس وقت شام کی سرکاری افواج بہتر پوزیشن میں ہیں اور اگر ترکی اور سعودی عرب نے شام میں مداخلت کی حماقت نہ کی تو حلب پر قبضہ کے بعد وہ دولت اسلامیہ کے مرکز رقّہ پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گی۔ اس طرح جلد ہی شام کی حد تک داعش کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ امریکہ اور یورپ کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ دولت اسلامیہ کو شکست ہو جائے اور وہ مغربی ممالک میں دہشت گردی کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں۔ اس کے علاوہ شام میں امن قائم ہونے سے وہاں سے یورپ کی طرف آنے والے لاکھوں پناہ گزینوں کا راستہ بھی روکا جا سکے گا۔ اور مکمل امن کی صورت میں ان لوگوں کی واپسی بھی ممکن ہو سکے گی۔ یہ ایک آئیڈیل صورتحال ہو سکتی ہے لیکن ابھی تک ترکی اس حل کی راہ میں رکاوٹ بنا ہو¿ا ہے بلکہ صدر اردگان نے یورپ کو یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر ترکی کا ساتھ نہ دیا گیا تو وہ اپنے ملک کی سرحدیں پناہ گزینوں کے لئے بند کر کے انہیں یورپ کی طرف دھکیل دے گا۔

اگرچہ یہ بھی طے ہے کہ شام میں داعش کی ناکامی کے بعد بھی یہ گروہ عراق میں موجود رہے گا جہاں اہم شہر موصل اس کے قبضے میں ہے اور بغداد کی شیعہ حکومت مخالف سنی قبائل داعش کی اصل قوت ہیں۔ اس کے باوجود شام میں دہشت گردوں کی شکست ان کی کمر توڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ کیا ترکی سعودی عرب کے تعاون سے اس ممکنہ کامیابی کا راستہ روک سکتا ہے اور کیا وہ یہ حوصلہ کرے گا؟ یہ وہ اہم سوال ہیں جن کا جواب آنے والے وقت میں مل سکے گا۔ اس موقع پر اگر تصادم کا راستہ اختیار کیا گیا تو نہ صرف مشرق وسطیٰ میں طویل جنگ شروع ہو سکتی ہے بلکہ دو مضبوط اسلامی ملک سعودی عرب اور ترکی زوال اور انتشار کا شکار بھی ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments