جمہوریت مشرق سے طلوع کیوں نہ ہوئی؟


 گزشتہ روز کسی نے سوال کیا کہ آپ خونریز مسیحی تاریخ بیان کیوں نہیں کرتے؟ اور یہ کہ مسلمانوں کی روشن تاریخ سے بے التفاتی کیوں برت رہے ہیں؟ اچھا سوال ہے۔ سوال کو ادھر ہی دھرا رہنے دیتے ہیں۔ اتنے میں ایک دو اور مقامات سے ہو آتے ہیں۔

تاریخ کا بیانیہ تو یہی ہے کہ مسیحی بادشاہتیں انسان کا خون کر رہی ہیں،اور پاپائیت بائبل کے بیچوں بیچ سے اسے خدائی تائید مہیا کررہی ہے۔ پیشوائیت کی نسبت پاپائیت زیادہ سیانی نکلی کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ اس نے ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کرلی۔ پیشوائیت نے داڑھ کو ہمیشہ پس خوردہ پہ ہی قانع رکھا۔ ساری خونریزیاں ایک معلوم تاریخ ہیں، بس دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کو تسخیر کرتے وقت نے یورپ کو سیاسی معاشی اوراقتصادی طور پہ کہاں لا کھڑا کیا؟ ایک وقت کا کھایئے تو دوسرے وقت کے لالے پڑے ہیں۔ بدبودار اون پہنیئے اور اینٹ سرہانے رکھ کر سوجایئے۔ کامیابی کا انحصار تعویذ گنڈے اور جادو ٹونے پہ رکھیئے، ناکامی کا الزام خدا پہ رکھ دیجیئے۔ یورب کا باشندہ دیکھ رہا ہے کہ اسپین میں آنکھوں کو خیرہ کردینے والی ترقی کا ظہور ہو رہا ہے۔ کلیسا بھی دیکھ رہا ہے کہ بغداد کے کتب خانے کس قدر پھیل رہے ہیں۔ ابن سینا، الہیثم، فارابی، جاحظ، ابن حیان، ابن رشد، ابن خلدون، علی بن ربان، جابر بن سنان، ابن فرناس، الکندی، الخوارزمی، بیرونی اور فارابی منہ چڑا رہے ہیں۔ یورپ کے لئے خیر کی بات یہ ہے کہ اندلس کے خلفا اور بغداد کے علما پوری جانفشانی سے باہم دست و گریبان ہیں۔ چونکہ مسلمانوں میں ہمیشہ سے یہ تصور رہا ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا، اس لیئے جب کبھی لڑنے کو دشمن نہیں ملتا تو احتیاطاً ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال لیتے ہیں۔ جب مسلمان آپس میں خوب لڑ لیتے تو دشمن کو ترس آجاتا ہے کہ ناہنجار کب تک آپس میں ہی لڑتے رہیں گے، چلو چل کے ہم اپنے سینے پیش کر دیتے ہیں۔ اسی جذبہ خیر سگالی کے تحت دشمن اندلس اور بغداد میں بھی پہنچ گئے۔ کچھ نہیں ہوا، بس اِدھر بغداد کے تارپود بکھر گئے ا±دھر اسپین کے بخیئے ادھڑ گئے۔ خون اس مقدار میں گرا کہ وہ علم کو یورپ کی طرف بہا لے جانے کو کافی ہوگیا۔ جو کچھ آپ نے ہندوستان اور چین کے کتب خانوں سے سمیٹا تھا وہی کچھ دشمن آپ کے کتب خانوں سے لپیٹ کر لے گیا۔ یہاں تک بات ہوگئی؟

اب دوسرے مقام پہ آجائیں۔ یہاں نیوٹن سے آن اسٹائن تک کی شخصیات تو چھوڑ ہی دیں جو سینہِ دہر کو پھاڑ کر حقیقتیں دریافت کررہے ہیں۔ گٹن برگ سے شروع کیجیئے جس نے ایک چھوٹے سے چھاپے خانے کی بنیاد رکھ کر یورپ کے ستارے کی چال ہی خطا کر دی۔ علم تک غربا کو رسائی مل گئی۔ صلاحیتیں بلاتفریق رنگ ونسل ظہور پذیر ہونے لگیں۔ اٹلی کی صرف ایک یونیورسٹی سے ولیم ہاروے، کوپرنیکس اور گلیلیو جنم لے رہے ہیں۔ یہاں مسلم سلطنت کے امیرالہائے مومنین سلطان فلاں ابنِ فلاں توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ اسلام پھیلا رہے ہیں اور وہاں ایڈیسن، مارکونی، میڈم کیوری، گراہم بیل، فلپس، چارلس لائل، فیراڈے، مورس، جیمز مل، ولیم چرچ، سٹیفن، رینی لاءنیک، ہنری کیونڈش، جیمز ہٹن، کلارڈ شیکے، گالوانی، چارلس نیو بولٹ، جیمز واٹ، ولیم سمتھ، سٹیفن، وولٹا، ماونٹ گالفیا جیسے علمائے سانس وطب روشنی پھیلانے پہ مرتکز ہیں۔ جب خضر خیرالدین پاشا وقت کے امیر المومنین کے لئے بحرِظلمات میں لچکیلی کنیز ڈھونڈرہا تھا تب یورپ کی چمنیوں سے اٹھتا ہوا دھواں ایک نئی دنیا کی خبر دے رہا تھا۔ عالم اسلام مقدس ہاتھی کے کان میں خراٹے لے رہا ہے اور یہاں موٹر ایجاد ہورہی ہے، بھاپ سے موٹریں چل رہی ہیں، برقی توانائی سے کمرے روشن ہورہے ہیں، ٹنوں کا لوہا سمندر کا سینہ چیر رہا ہے، منوں کا لوہا ہواوں میں اڑ رہا ہے، آہنی گھوڑے پٹریوں پہ بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں،مہینوں کی مسافت دنوں میں دنوں کی گھنٹوں میں سمٹ رہی ہے، مواصلاتی فاصلے مٹ رہے ہیں، چھاپے خانے علم کی رفتار کو بڑھا رہے ہیں، منجنیق کے زمانے لد رہے ہیں، توپ خانے لگ رہے ہیں، ادویات بن رہی ہیں، شفا گاہیں قائم ہورہی ہیں، ستاروں پہ کمندیں پڑ رہی ہیں، جستجو اب فلک تک جانے کیلئے تسمے کس رہی ہے، عرضیکہ جو دن کبھی یورپ نے دیکھے تھے وہ دن اب مشرق کو دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ میں رکتا ہوں۔ میں اس سچائی کے اقرار کے لئے رکا ہوں کہ ہاں جب یورپ ترقی کے یہ سارے منازل درجہ بدرجہ طے کر رہا تھا تب بھی یورپ میں گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ انسان کی شہ رگ سے خون کا فوارا تب بھی چھوٹ رہا تھا۔ مگر حیرت کیسی؟ یہ تو ہونا ہی تھا۔ جو ایک فرق ہے وہ مجھے بیان کر لینے دیجئے تو شاید میری بات آپ کے دل میں گھر کر جائے۔

فرق یہ ہے کہ یورپی سماج نے یکسر بدل جانے والی دنیا میں بدلے ہوئے انداز سے رہنے کا ایک غیر شعوری فیصلہ کرلیا تھا۔ یہ سامنے کی سچائی ہے کہ نئی دنیا میں پرانے طور سے رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ ایسے میں جب کبھی کسی نے پکارا تو اجتماعی شعور نے انحراف نہیں کیا۔ مارٹن لوتھر کنگ نے پکارا تو عوام نے روایتی کلیساوں کا دفاع نہیں کیا۔ برطانیہ میں عوام نے فرسودہ خیالات کے سحر میں رہ کر نئی بات کو نہیں جھٹلایا۔ فرانس کے تھکے ہارے شہری کو اگر قیادت میسر نہ بھی آئی تو بھی اس نے فرد کی آزادی کے لئے جنگ سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ اقتدار میں براہ راست شراکت، احتساب کا حق، اظہار رائے کی آزادی، قانون کے یکساں برتاو اور بقائے باہمی کی یکساں سہولیات کے لئے لڑی گئی جنگ کیا ایسے حالات میں جیتنا ممکن تھا کہ ایوان وکلیسا کا گٹھ جوڑ موجود ہو؟ بیک وقت استبداد کی سیاسی اور الہامی دونوں ہی شکلوں کو سماج نے مسترد کردیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ گلیلیو نے وہ دن دیکھے جو ابن رشد کو دیکھنے پڑے تھے، درست ہے کہ کلیسا نے گلیلیو پہ بندشیں عائد کردی تھیں، یہ بھی ٹھیک کہ گلیلیو کو لکھنا کہیں سے پڑتا اور چھپوانا کہیں سے پڑتا، یہ سب ٹھیک ہے مگر یاد رکھیئے گا کہ عوامی تائید کلیسا کے ساتھ نہیں تھی۔ اجتماعی شعور نے مانٹسکیو، لاک، ہوگیو گروشس، ہابز، والٹئیر اور روسو جیسے علمائے عمرانیات کو شاہوں کے درباروں میں رسوا ہوتا دیکھ کر کبھی شکرانے کے نوافل ادا نہیں کیئے۔ جنہوں نے ادا کئے، وقت نے ان کے ساتھ وہی برتاو کیا جو مسلم صالحین کے ساتھ کیا اور کر رہا ہے۔

اب اس کے برعکس معاملہ دیکھ لیں؟ چلئے دیکھتے ہیں۔ مگر پہلے وہ سوال دہراتے ہیں جو آپ نے آغاز میں ہی کردیا تھا۔ سوال ہے کہ آپ خونریز مسیحی تاریخ بیان کیوں نہیں کرتے۔ اور یہ کہ مسلمانوں کی روشن تاریخ سے بے التفاتی کیوں برت رہے ہیں؟ یہ سوال بس یونہی یاد دہانی کے واسطے دوہرا دیا، اب بات آگے بڑھاتے ہیں۔ سترھویں اور اٹھارویں صدی کی ایجادات سے تو اول مسلم دنیا واقف ہی نہیں تھی۔ جب ایجادات سے واقف نہیں تھی تو اس بات کا تو ادراک ہی ممکن نہیں تھا کہ انسان نے اب کس سمت میں کس طرز پہ سوچنا شروع کردیا ہے۔ لیکن چلئے خبرتو ہوگئی نا۔؟ اب کیا کیا جائے؟ دیکھیئے جب اسپین میں علم کا غلغلہ ہوا تو یورپ نے وہ علم یورپ منتقل کردیا۔ اب جب یورپ سے نئی دنیا کا ظہور ہوا تو مسلمانوں کے اجتماعی شعور نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے کہاں کھڑا ہونا ہے۔ ایسا ہی ہے نا؟ تو چلئے دیکھتے ہیں کہ ہم کب کب، کہاں کہاں اور کیسے کیسے کھڑے رہے۔

تین چار پے درپے جھٹکوں کے بعد عثمانی سلطنت کے سلطان سلیم ثالث کو احساس ہوا کہ ہمیں بھی اپنی افواج کی صفیں یورپی طرز پہ ترتیب دے لینی چاہیئں۔ ابھی صرف افواج کو وردی پہنانے کی بات چلی کہ فتوی آگیا کہ ہم یہود وہنود کی مشابہت اختیار نہیں کر سکتے۔ خود اجتماعی شعور نے بھی وردی کو اس خوف سے مسترد کردیا کہ روز جزا ہمارا حشر یہودیوں کے ساتھ نہ کردیا جائے۔ جدید اسلحے سے لیس ہونے کی بات آئی تو شیخ الاسلام اور اس کے ہمنواوں نے کہا کہ کافر کا ایجاد کردہ اسلحہ استعمال کرنا حرام ہے۔ ایک شور اٹھ گیا کہ اللہ کو تو پامردیِ مومن پہ بھروسہ ہے اور ابلیس کو دیکھو کہ یورپ کی مشینوں کا سہارا لے رہا ہے۔ یہ پروپیگنڈا اس قدر طاقتور ثابت ہوا کہ سلطان سلیم کو معزول کرکے قتل کردیا گیا۔ ہم کہاں کھڑے تھے۔؟ پیشواوں کی فرسودہ خیالی کے ساتھ۔

ایسا بھی نہیں کہ نئی بات کی طرف مسلم معاشروں میں کوئی بلانے والا نہیں تھا۔ مت بھولیئے کہ سعید حلیم پاشا اور محمد متوفی جیسے دانشوراسی عہد کی پیداوار ہیں۔ فرماتے تھے کہ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کیلئے یہ لازم ہوچکا کہ جمہوریت کو راستہ دیا جائے۔ ہم نے مسترد کردیا۔ پھر اسی عہد کے نامق کمال اور محمد رسمی جیسے نابغوں نے احساس دلاتے ہوئے کہا تھا جدید مغربی علوم کو اختیار کیئے بغیر ہم ترقی کی دوڑ میں کسی مناسب مقام پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ ہم نے دونوں دانشوروں کو سامراج کا ایجنٹ کہہ کر مسترد کردیا۔ پھر جناب خیر الدین پاشا جیسے دانشور بھی تو کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ملوکیت اور استبدادی حکومتوں کی جگہ ایسی حکومتوں کا قیام عمل میں آنا چاہیئے جو کسی دستور کی پابند ہوں۔ ہم نے انہیں مسترد کردیا۔ پھر مصر کی شیخ رافع طحطاوی جیسے مفکر کی بھی سن لیں۔ یاد رکھیئے کہ شیخ طحطاوی فرانسیسی استعمار کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت تھے۔ مگر انہوں نے کہا لبرل ازم وہی چیز ہے جس کو اسلام کی زبان میں عدل وانصاف کہا جا سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے یہ تو کفر کی آخری حد تھی چنانچہ ہم نے مسترد کردیا۔ ضیا گوگ الف کو جانتے ہیں آپ؟ یہ خلافت کے علمبردار تھے۔ ترکی زبان سے جب عربی اور فارسی کے الفاظ ختم کرنے کی مہم شروع ہوئی تو انہوں نے مزاحمت کی۔ جانتے ہیں کیا کہتے تھے؟ کہتے تھے کہ مستحکم معاشرے کی تشکیل کیلئے سیکولرازم سے بہتر کوئی فارمولا نہیں ہوسکتا۔ اب یہ گمان بھی کیسے کیا جا سکتا ہے کہ ان کی بات سنی بھی گئی ہوگی۔ مسترد ہی ہونا تھا، سو مسترد ہوگئے۔ بہت گھوم لئے ترکی میں ، اب ہندوستان آتے ہیں۔ یہاں ہم کن کے ساتھ کھڑے تھے؟ پیشواﺅں کے ساتھ ہی کھڑے تھے۔ دیکھیے وہ کیا فرمارہے ہیں۔ ریڈیو حرام ہے۔ تصویر حرام ہے۔ ویڈیو حرام ہے۔ لاوڈ اسپیکر حرام ہے۔ پینٹ شرٹ حرام ہے۔ کیپ حرام ہے۔ جمہوریت کفر ہے۔ علی گڑھ یونورسٹی کفر کا اڈہ ہے۔ نامق کمال اور خیرالدین پاشا والی بات ابولکلام آزاد نے کی تو دھتکارے گئے۔ سید حسین مدنی نے جدید ریاست کے تناظر میں ہی کہا تھا مذہب سے نہیں، قوم وطن سے بنتی ہے۔ اس نقطہ نظر کے جواب میں حضرت علامہ اقبال نے جواب میں کیا الزام عائد کیا؟ یاد ہے وہ فارسی شعر یا پھر دوہراو¿ں؟ مولانا عبید اللہ سندھی نے جمہوریت اور سیکولرا زم کے محاسن گنوائے تو اپنے وقت کے ایک سنجیدہ شیخ الاسلام نے فرمایا سندھی صاحب در اصل ذہنی توازن کھوچکے تھے۔ لاحول ولاقوہ۔ میری جان فیض اللہ خان کو لے دے کر ایک جاوید احمد غامدی ہی اگر یاد رہے تو اس میں کیا تعجب۔ تعجب اس بات میں ہے کہ سید مودودی پہ لگنے والے ہزاروں فتووں کی تاریخ جاننے والے ہم پہ طنز کرتے ہیں۔ اس پہ مستزاد یہ کہ جنہوں نے سید مودودی پہ فتوے لگائے تھے وہ اب مودودی صاحب کے جلو میں کھڑے ہمیں اقبالیات پڑھا رہے ہیں۔ جن دانشوروں کے نام ہم نے لیئے اسے بھی مخملی غلاف میں دبا لیجئے۔ اتنا بتا دیجئے کہ شاہ والی اللہ کی حجت اللہ البالغہ کا کیا بنا؟ شاہ صاحب سے نہیں آپ سے سوال ہے۔ کوئی علمی کام؟ کوئی شغف؟ کوئی اس کا تسلسل؟ کچھ بھی؟ کبھی سروے کروا کر دیکھ لیجئے گا کہ اہلِ علم کو حجت اللہ البالغہ میں دلچسپی ہے کہ شیعہ عقائد کی رد میں لکھی ان کے بیٹے کی کتاب میں۔ شاہ ولی اللہ کے نام پہ مسجدیں بنانے کے سوا کوئی کام ہوا ہو تو ہمارے اطمینان کے لئے بہت ہوگا۔ چھوڑیں یہ سب، سوال دوہراتے ہیں۔ سوال تھا کہ آپ خونریز مسیحی تاریخ کیوں بیان نہیں کرتے۔ اور یہ کہ مسلمانوں کی روشن تاریخ سے بے التفاتی کیوں برت رہے ہیں۔

کیونکہ!

عہدِ حاضر کا یورپی باشندہ اپنی خونریز تاریخ پہ فخر نہیں کرتا۔ وہ لڑے، مگر رکے، فیصلہ کیا، چلے، اور آگے بڑھ گئے۔

کیونکہ!

آپ کو فخر ہی اپنی خونریز تاریخ پہ ہے۔ آپ لڑے، آپ رکے، پھر لڑے، آپ نے فیصلہ کیا، پھر لڑے، آپ بڑھے، پھر لڑے۔ کوئی نہ ملا تو آپس میں لڑے۔ تاریخ کے روشن جھروکوں سے آپ آنکھ نہیں ملاتے۔ آپ کے بیانیوں اظہاریوں اور خطابیوں میں مسلم تاریخ کے علمائے طب و سائنس پہ فخر نہیں ملتا۔ فخر تب کرتے ہیں جب طعنہ دینا ہوتا ہے۔ ورنہ یوں ہے کہ آپ تو تب بھی روپوش ہوگئے تھے جب امام حنبل کو کوڑے پڑ رہے تھے۔ یورپ کا باشندہ اپنے ان کرداروں پہ فخر کرتا ہے جو اسپین سے علم چرا لائے تھے۔ آپ ان کرداروں پہ اتراتے پھرتے ہیں جو مندروں سے سونا چرا لائے تھے۔ جنہوں نے میری ماں کو کنیز بنا کر رکھا، آپ کہتے ہیں میں اسے ہیرو مان لوں۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہم آگے بڑھنا نہیں چاہتے۔ بس ایک زعم ہے کہ ہم ہی غالب آئیں گے کیونکہ مومن جو ٹھہرے۔ کیا واقعی خدا کے بارے میں آپ کے ایسے ہی کچھ گمان ہیں؟ جیتے رہیئے۔ صبح بخیر شام بخیر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments