بسنت کا آغاز مسلمانوں میں کیسے ہوا؟
دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان کے باشندے بھی جاڑا ختم ہونے پر آمد بہار کو مبارک اور اچھا سمجھ کر نیک شگون کے واسطے اپنے دیوی دیوتاؤں اور اوتاروں کے استھانوں میں مندروں پر ان کے رجھانے کے لئے بہ تقاضائے موسم سرسوں کے پھولوں کے گڑوے بنا کر گاتے بجاتے لے جاتے اور اس میلے کو بسنت کہتے۔
حضرت امیر خسرو دہلوی نے اس میلے کو مسلمانوں میں رائج کیا۔ روایت یہ ہے کہ محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیا کو اپنے بھانجے مولانا تقی الدین نوح سے بہت پیار تھا۔ تقی الدین نوح کو بھی حضرت محبوب الہی سے اس درجے انس تھا کہ پانچوں وقت نماز پڑھ کر دعا مانگتے تھے کہ الہی میری عمر بھی محبوب الہی کو دے دے تاکہ ان کا روحانی فیض عرصہ دراز تک جاری رہے۔ بھانجے کی دعا قبول ہوئی اور اٹھتی جوانی ہی میں اس جہاں سے اٹھ گئے۔
حضرت نظام الدین اولیا کو یہاں تک صدمہ اور رنج و الم ہوا کہ آپ نے یک لخت، جس راگ کے بغیر دم بھر نہیں رہتے تھے، اسے بھی ترک کر دیا۔ جب اس بات کو چار پانچ مہینے کا عرصہ گزر گیا تو آپ تالاب کی سیر کو، جہاں اب باؤلی بنی ہوئی ہے، مع یاران جلسہ تشریف لائے۔
ان دنوں میں یہی بسنت کا موقع اور بسنت پنچمی کا میلہ تھا۔ امیر خسرو کسی سبب سے ان سب کے پیچھے رہ گئے۔ دیکھا کہ کھیتوں میں سرسوں پھول رہی ہے۔ ہندو اپنے بزرگوں کے استھانوں پر گڑوے بنا بنا کر لئے چلے جاتے ہیں۔ انہیں بھی یہ خیال آیا کہ میں بھی اپنے پیر کو خوش کروں۔ چنانچہ اس وقت ایک خوشی و انبساط کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اسی وقت دستار مبارک کو کھول کر کچھ پیچ ادھر اور کچھ ادھر لٹکا لئے۔ ان میں سرسوں کے پھول الجھا الجھا کر یہ مصرعہ الاپتے ہوئے اسی تالاب کی طرف چلے جدھر آپ کے پیر مرشد تشریف لے گئے تھے۔
اشک ریز آمدہ است ابر بہار (بہار کے بادل چھائے ہوئے ہیں تو بھی آنسو بہا)
جہاں تک اس الاپ کی آواز پہنچتی تھی، یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک زمانہ گونج رہا ہے۔ ایک تو حضرت فن موسیقی کے نائک اور عدیم المثل سرود خواں تھے، دوسرے اس ذوق شوق نے اور بھی آگ بھڑکا دی۔
کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ محبوب الہی کو خیال آیا کہ آج ہمارا ترک یعنی خسرو کہاں رہ گیا۔ عجب نہیں کہ کچھ سریلی بھنک بھی کان میں پہنچی ہو۔ آپ نے پے در پے دو چار جلیسوں کو ان کے لینے کو بھیجا۔ وہ جو تلاش کرتے آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ عجب رنگ سے آپ گاتے ہوئے مستانہ چال و معشوقانہ انداز سے خراماں خراماں جھومتے ہوئے چلے آتے ہیں۔ وہ (ہم جلیس) بھی کچھ ایسے مدہوش ہوئے کہ اسی رنگ میں مل گئے۔ ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد۔ غرض ایک شخص واپس آیا
اشک ریز آمد است ابر بہار
ساقیا گل بریز بادہ بیار (اے ساقی پھول بکھیر اور شراب لے آ)
دوسرے مصرعے کا سننا تھا کہ حضرت نے بے تاب ہو کر اپنے دامان و گریبان کو چاک کر ڈالا اور حضرت امیر خسرو کو گلے میں بانہیں ڈالے ہوئے لئے چلے آئے۔ کہتے ہیں کہ ایک عرصے تک رقت کا بازار گرم رہا اور اہل ذوق مرغ بسمل کی طرح تڑپتے اور پھڑکتے رہے۔
غرض اس وقت سے مسلمانوں میں یہ میلہ بھی شروع ہو گیا اور حضرت سلطان المشائخ نے بھی راگ پھر سے شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ ہر بزرگ کے مزار پر بسنت چڑھنے لگی۔ اول پہاڑوں پر امیر میاں کی بسنت چاند رات کو چڑھتی ہے، پھر پہلی تاریخ کو قدم شریف میں۔ غرض اسی طرح خواجہ صاحب، چراغ دہلی، حضرت نظام الدین وغیرہ وغیرہ بزرگوں کے مزاروں پر باری باری سے چڑھتی ہے۔
کہتے ہیں کہ حضرت محبوب الہی کو اس قدر رنج ہوا تھا کہ چھے مہینے تک ہنسنا تو کجا تبسم تک نہیں فرمایا تھا۔ بسنت کی اسی رعایت سے اب بسنت کے روز قوال اول حضرت کی قدیم خانقاہ میں جا کر پھول چڑھاتے ہیں، اس کے بعد مولانا تقی الدین نوح کے مزار پر اور اخیر میں حضرت محبوب الہی کے روضہ اقدس پر چڑھاتے ہیں۔
قصہ بحوالہ فرہنگ آصفیہ
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).