جناب عاصم بخشی صاحب کی خدمت میں….


\"akhtar-ali-syed\"

 ملک سے باہر ہونے کے نقصانات میں سے ایک بہت سے صاحبان علم، ان کے علمی کام ، مقام اور مرتبے سے نا واقفیت ہے۔ ’ہم سب‘ کے اجرا نے چند اصحاب علم کے نام اور تحریروں سے آشنائی کی ایک انتہائی خوشگوار صورت پیدا کی ہے۔ ان صاحبان علم میں سے ایک جناب عاصم بخشی صاحب بھی ہیں۔ جناب بخشی صاحب نے اپنی تازہ تحریر میں تین مضامین پر عالمانہ تبصرہ کیا ہے۔ روزی روٹی کے معاملات اور دیار غیر کی دیگر اڑچنیں شدید تر خواہش اور کوشش کے باوجود ’ہم سب‘کے تمام مضامین کے مطالعے سے محروم رکھتی ہیں۔ اعتراف کرتا ہوں کہ جن مضامین پر تبصرہ کیا گیا ہے وہ میں نے بخشی صاحب کے مضمون کے بعد پڑھے۔ مجھے ان تحریروں اور تبصرے پر تو کچھ نہیں کہنا تاہم چند گزارشات ایک کم علم قاری کے طور پر پیش کرنا ہیں۔

ہم جیسے عامی اگر آئین سٹائن پیدا کرنے والے اور عبدالسلام کو عاق کرنے والے معاشروں، ان کی ساخت اور ان معاشروں کے مستقبل میں فرق نہ کر سکیں تو شاید کسی کو تعجب نہ ہو لیکن اگر بخشی صاحب جیسا صاحب علم و نظر اس فرق کو نظر انداز کر کے یہ پوچھے کہ ’اگر بالفرض اس دریافت کا سہرا کسی فرزندان توحید نامی معتوب ہجوم کے سر بندھ جاتا تو سماجی طور پر کونسی خوشگوار تبدیلیاں متوقع تھیں‘ تو حیرانی کا ظہور تو لازم ٹھہرتا ہے۔

ذرا اجازت دیجیے کہ ایک مختصر سی تمہید کے بعد ان خوشگوار سماجی تبدیلیوں کے ذیل میں کچھ عرض کروں جن کی بابت استفسار فرمایا گیا ہے۔ 11 ستمبر 2001ء کے بعد برنارڈ لوئس Lewis Bernard نے یہ نکتہ اٹھایا کہ گزشتہ کئی صدیوں سے مسلمانوں نے سیاسی، اقتصادی، عسکری، سائنسی، اور دیگر علمی میدانوں میں کوئی نمایاں خدمت اور کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔ کوئی بھی ایسا نابغہ جو علوم یا فنون لطیفہ کے کسی بھی شعبے میں کوئی نیا کام یا خیال پیش کر سکے مسلم دنیا سے سامنے نہیں آیا۔ یہ صورتحال اعدا و اغیار کی پیدا کردہ ہے۔ امت مرحوم کی تقدیر میں ایسا لکھا تھا یا مسلم معاشرے ان معاشرتی اقدار کی افزائش نہیں کر سکے جو بڑے ذہن پیدا کرتی ہیں۔ آئین سٹائن، فرائیڈ، اور ڈارون جیسے لوگوں کی پیدائش اور پرداخت معاشروں کی زندہ علمی روایات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ زندہ علمی روایات کی اساس زندہ مکالمے اور زندہ اختلاف پر استوار ہوتی ہے۔ اگر آئین سٹائن فرزندان توحید میں سے ہوتا تو کیا (آئین سٹائن اور بوہر کے مابین ہونے والی بحث کو جاننے والے کے لئے ) اختلاف کی سطح اور اس کو برداشت کرنے صلاحیت مسلم معاشروں میں وہی ہوتی جو اس وقت ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں موجود وہ کون سے عوامل ہیں جو نئے سوال اٹھانے اور نئے جوابات ڈھونڈنے کی راہ میں مسلسل رکاوٹ ہیں۔ مجھے یقین ہے اس سوال کے جواب کا سراغ ہنود و یہود کے سازشی ذہن میں ڈھونڈھنے کی کوشش نہیں فرمائی جائے گی۔

 آئین سٹائن کی پیدائش معاشروں کی زرخیزی اور ان کے نظریات کی قبولیت معاشروں کی پیش قدمی کی صلاحیت کا روشن ثبوت فراہم کرتی ہے۔ ان معاشروں نے سقراط اور گلیلیو کو نظر انداز کرنے والوں کو اپنایا یا عاق کر دیا؟ کیا مسلم معاشرے خصوصاً گزشتہ تین صدیوں میں پیدا ہونے والا ایک بھی ایسا نابغہ گنوا سکتے ہیں جن کے کارناموں کا میدان مذہبی نہ ہو مگر اس کے نام اور کام سے عام لوگوں کی واقفیت اور لگن کا درجہ وہی ہو جو آئین سٹائن اوراس قبیل کے دیگر لوگوں کو حاصل ہے۔ آپ کو وہ اسباب تلاشنے ہوں گے جو غیر مذہبی دانش کے کسی بھی شعبے کو قبولیت عام حاصل نہیں کرنے دیتی۔ آپ کا ہر ہیرو ایک جنگجو یا ایک مفتی ہی کیوں ہوتا ہے؟ ان وجوہات کا کھوج لگانا ہوگا جو ذکاوت اور پیش قدمی کے تعطل کا سبب ہیں۔ بخشی صاحب نے درست فرمایا مدرسے ہی نہیں پاکستان کی یونیورسٹی نے بھی اسناد جاری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ضیا الحق کے مارشل لا کے دنوں میں یونیورسٹی میں ہمارے اساتذہ نفسیاتی امراض کی تشخیص اور اسباب کے ذیل میں اجمالاً ہی سہی مگر درست اصطلاحات میں بات کر سکتے تھے۔ اب صورتحال اور بھی مختلف ہے۔ پشاور میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بچوں کے نفسیاتی علاج کی تربیتی ورکشاپ ایک بڑے تعلیمی ادارے نے اس وقت منعقد کی جب ملک کے تمام تعلیمی ادارے سکیورٹی کے پیش نظر بند تھے۔ ماہرین نفسیات کی ایک بڑی تعداد ورکشاپ میں تشریف لائی۔ اس سوال پر خاموشی اختیار کر لی گئی کہ اگر ایک زیر علاج بچہ آپ سے یہ سوال کرے کہ مجھے کیوں نشانہ بنایا گیا۔ کسی کے اس سوال کا ایسا جواب نہیں تھا جو پوسٹ ٹرامٹک سٹریس ڈس آرڈر PTSD کے شکار بچے کو مطمئن کر سکے۔ یہ سوال پورے معاشرے کے اس طرز عمل پر ایک تبصرہ ہے جو حملہ آوروں کی پیدائش، تربیت اور افزائش نسل کا براہ راست ذمہ دار ہے۔

آئین سٹائن کی دریافت معاشرے کو یہ یقین فراہم کرتی ہے کہ آنے والے وقت کو سو برس قبل بھی علم و عقل کی بنیاد پر انسانی گرفت میں لایا جاسکتا ہے۔ وہ معاشرہ جو آنے والے وقت کو جاننے کے لئے یا تو اشتہار باز نجومیوں سے رجوع کرے یا مقدس کتابوں میں درج پیش گویوں کے حوالے لائے۔ غور فرمایے اس معاشرے کے لئے عقل انسانی پر اعتماد کی بحالی کتنا بڑا تحفہ ہوتی۔ میں مقدس کتابوں میں درج پیش گوئیوں پر تبصرہ کرنے کی نہ تو حیثیت رکھتا ہوں اور نہ نیت۔ مگر جب اقوام متحدہ میں تقریر فرماتے ہوئے کہا جائے کہ ہماری سیاسی جدوجہد کا مقصد ایک موعودہ مقدس ہستی کی آمد کی راہوں کو ہموار کرنا ہے۔ یا کوئی غزوہ ہند کا اہتمام کرتا نظر آے تو دینیات کا طالب علم نہ ہوتے ہوے بھی یہ پوچھا جا سکتا ہے مقدس ہستی کی آمد اور غزوہ ہند کا وقوع پذیر ہونا الوہی منشا کے زیر اثر ہے یا بے بس دنیا داروں کی ذمہ داری؟ کیا اس طرح کی مساعی میں مصروف معاشروں میں ایسی پیش گوئیوں کا صحیح ثابت ہونا جو انسانی علم و فہم نے اخذ کی ہوں کسی خوشگوار تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments