چھوٹی زبانوں کا بڑا مسئلہ


پاکستان ایک کثیر اللسانی ملک ہے۔ اس کے طول و عرض میں ایک اندازے کے مطابق کوئی ستر کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کے بولنے والوں کی درست تعداد کا معلوم ہونا تو درکنار، خود زبانوں کی تعداد کا تعین ہی ٹھیک طرح سے نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے ابھی تک سرکاری طور پر کسی مردم شماری میں ان زبانوں کے بارے میں اعداد و شمار اکھٹے نہیں کیے گئے۔

مردم شماری کسی ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے بہت ضروری عمل ہے۔ اس کے ذریعے ملک کے مختلف انتظامی یونٹوں میں بسنے والے لوگوں کی تعداد، عمر، تعلیم، معیار زندگی، سہولیات، مذہب، زبان وغیرہ کے بارے میں تفصیلی اعداد و شمار اکھٹے کیے جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار منصوبہ بندی کے عمل میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں انگریزی دور میں مردم شماری ہر دس سال بعد باقاعدہ ہوتی رہی۔ آزادی کے بعد بھی اس معمول پر عمل کیا جاتا رہا۔ لیکن 1981 کی مردم شماری کے بعد اس عمل کے معیار اور شفافیت پر سولات اٹھنے لگے۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے تھا کہ مردم شماری کے طریقہ کار کو نقائص سے پاک کرکے اسے سب کے لیے قابل قبول بناتی۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے مردم شماری کو ملتوی کرنے کا سلسلہ شروغ کیا گیا۔ چنانچہ 1981 کے بعد صرف ایک مردم شماری 1998 میں ہوسکی۔ سال رواں کے دوران سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں حکومت مردم شماری کرا تو رہی ہے، لیکن نیم دلی سے اور بغیر کسی مناسب تیاری کے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس عمل پر پھر سے سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

پاکستان میں مردم شماری کے عمل میں ایک نقص یہ ہے کہ اس میں چھوٹے لسانی اور مذہبی گروہوں کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مردم شماری کے بنیادی فارم میں زبان کا بھی ایک کالم ہے۔ اس سے پہلے کی مردم شماریوں میں اس کالم میں صرف چھ زبانوں میں سے کسی ایک کے اندراج کی گنجائش تھی یعنی اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، اور کشمیری۔ اس بار ان میں تین زبانوں کا اضافہ کیا گیا ہے جو بروہی، سرائیکی اور ہندکو ہیں۔ ان نو زبانوں کے علاوہ باقی زبانوں کے بولنے والوں کو ایک ہی خانے میں ڈالا جائے گا جسے “دیگر” کا نام دیا گیا ہے۔ اس طرح مردم شماری میں ہر زبان کے بولنے والوں کی تعداد کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوگا۔ ان زبانوں میں کچھ بڑی زبانیں جیسے کھوار اور شِنا وسیع علاقے میں بولی جاتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے بولنے والوں کی تعداد میلین سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف ایسی زبانیں بھی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور ان کے وجود کو ہی خطرہ درپیش ہے۔

پاکستان کے بعض بڑے لسانی گروہ مردم شماری کے عمل کو اس بنیاد پر شک کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ شاید ان کی تعداد کو گھٹا کر پیش کیا جائے گا۔ لیکن چھوٹے لسنی گروہوں کے لیے یہ عمل سرے سے بے مغنی ہوکر رہ گیا ہے، کیونکہ اس عمل میں انکے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا ہے۔ چھوٹے لسانی گروہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زبانوں اور ثقافتوں کے تحفظ سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ ان حالات میں خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ چھوٹے لسانی گروہوں کی عدم دلچسپی کے سبب ان کے علاقوں میں مردم شماری کا عمل درست طریقے سے نہ ہو سکے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں اگر کوئی حکومت اتنے آسان معاملے کا حل نہیں نکال سکتی تو یہ ایک المیہ ہوگا۔

ممتاز حسین، چترال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ممتاز حسین، چترال

ممتاز حسین پاکستان کی علاقائی ثقافتوں اور زبانوں پر لکھتے ہیں ۔ پاکستان کے شمالی خطے کی تاریخ، ثقافت اور زبانوں پر ایک ویب سائٹ کا اہتمام کیے ہوئے ہے جس کا نام makraka.com ہے۔

mumtaz-hussain has 11 posts and counting.See all posts by mumtaz-hussain