خود وہ تبدیلی بن جائیں جو آپ دنیا میں‌ دیکھنا چاہتے ہیں۔


صبح صبح‌ الائزا نے پنجہ ناک میں‌ مار کر جگا دیا۔ آنکھیں‌ کھولیں‌ تو وہ بالکل میرے سامنے بیٹھی چہرہ تک رہی ہے کہ صبح‌ ہوگئی اب آپ اٹھ جائیں اور مجھے ناشتہ بھی کرائیں۔ پانی مارا تو اس میں‌ جلن ہونے لگی۔ کہیں‌ مجھے کیٹ اسکر یچ فیور نہ ہوجائے، اس کو اچھی طرح‌ سے صابن سے دھو دیا۔

بیٹی کے کمرے سے مسلسل الارم بجنے کی آواز آرہی تھی۔ رات کے بارہ بجے تک اسکول کا ہوم کریں‌ تو الارم بھی نہیں‌ جگا سکتا۔ آجکل پڑھائی بھی بہت مشکل ہوگئی ہے اور کافی ایڈوانسڈ بھی۔ کوئی پندرہ منٹ تک بجنے دیا تاکہ وہ تھوڑا سا اور سو لے۔ ٹین ایج بچوں‌ کے لئیے نیند نہایت اہم ہے کیونکہ اگر وہ مناسب نیند نہ لیں‌ تو کلاس روم میں‌ دماغ کام نہیں‌ کرتا ہے۔

جب کلینک پہنچی تو پہلی مریضہ پہنچ چکی تھیں‌۔ ان کی آنکھیں‌ سوجی ہوئی تھیں۔ آپ آج کیسے، آپ کی تو چھ مہینے   بعد کی واپسی کی اپوائنٹمنٹ تھی؟ تین ہفتے پہلے ان کا 25 سال کا بیٹا گھر واپس آتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔ اس نے بہت زیادہ شراب پی ہوئی تھی اور نشے میں‌ کار کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ کہنے لگیں‌ مجھے بار بار خواب میں‌ میرا بیٹا آکر کہتا ہے کہ آپ کی ڈاکٹر نے تین دن کے بعد بلایا ہے اور تھائرائڈ کی بایوپسی کرالیں۔

حالانکہ میں‌ نے ان کو الٹراساؤنڈ کی فلمیں‌ دکھا کر اچھی طرح‌ سمجھا دیا تھا کہ یہ ٹیومر بینائن یعنی کہ معصوم دکھائی دے رہے ہیں، نہ ان کی باؤنڈریز ارریگولر ہیں، نہ ان میں‌ خون کی سپلائی زیادہ ہے اور نہ ہی اس میں‌ کیلشیم کے زرے دکھائی دے رہے ہیں۔ سر، گردن اور سینے پر ریڈیشن ٹریٹمنٹ کی بھی کوئی ہسٹری نہیں‌ ہے، تھائرائڈ کینسر کی فیملی ہسٹری بھی نہیں اور گلے میں‌ دباؤ کی بھی کوئی علامات نہیں۔ ان سب باتوں‌ کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا امکان نہایت کم ہے کہ ان کو تھائرائڈ کا کینسر ہو۔ اس صورت حال میں‌ بایوپسی کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف چھہ مہینے یا سال میں‌ ایک مرتبہ دوبارہ سے دیکھ لینا کافی ہے۔ کبھی کبھار بلاوجہ انٹروینشن کرنے سے مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں، جیسا کہ اگر “فالس پازیٹو” یعنی کہ جھوٹا مثبت ٹیسٹ رزلٹ آگیا تو اگلا مرحلہ تھائرائڈ کی سرجری ہے۔ سرجری کسی بھی قسم کی ہو، اس میں‌ رسک ہمیشہ ہوتا ہے۔ میڈیسن اور سرجری میں‌ نوک جھوک چلتی رہتی ہے اور میڈیسن کا ایک اصول ہے کہ اپنا مریض سرجن کو مت دیں۔

انٹرنل میڈیسن میں‌ ایک انٹرنل لطیفہ ہے کہ ایلاویٹر لفٹ کے سامنے مختلف قسم کے ڈاکٹر کھڑے تھے اور انہیں‌ اس کا دروازہ کھلا رکھنے کے لئیے جسم کا وہ حصہ آگے کرنا تھا جس کو وہ سب سے کم استعمال کرتے ہوں‌ یا جس کی اہمیت سب سے کم ہو تو سرجن نے سر آگے کر دیا۔

جو چیز ٹوٹی ہوئی نہ ہو اس کو جوڑنے کی کوشش کرنا فضول ہے لیکن دوسری طرف کچھ باتیں‌ ہیں جہاں‌ بحث چلتی ہے اور کہیں ہتھیار ڈالنے ہوتے ہیں۔ میں‌ نے اپنی نرس شیری سے کہا کہ کمرا تیار کرو۔ ان سے کہا کہ اپنا نیکلس اتار دیں تاکہ گردن کو الکوحل سے صاف کرکے الٹراساؤنڈ کی مدد سے بایوپسی کی جائے۔ انہوں‌ نے گہرہ سانس لیا اور اس کے پتھر کو ہاتھ میں‌ دبوچ کر کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ اس کو کریمیٹ کروا کر گلے میں‌ پہنا ہوا تھا۔ ختم ہوگئی تو کہنے لگیں‌ امید ہے کہ اس سے میرے بیٹے کی تسلی ہوگئی ہو گی اور وہ مجھے یہ کہنا بند کردے گا کہ بایوپسی کرالیں۔ اب اس بات کا کیا جواب ہوسکتا ہے؟ ایک نارمل اور صدمے سے دوچار دماغ میں‌ فرق ہوتا ہے اور ایک دماغ دوسرے کی حالت کو نہیں‌ سمجھ سکتا۔ اس لئیے ہمیں انسانوں کے گرد دائروں‌ کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور ان کی عزت بھی کرنا ہوگی۔

اجمیر شریف گھوما، پھول بھی اپنے ساتھ واپس لے آئے اور وہ جو دھاگا لوگ جالیوں‌ میں‌ باندھ رہے تھے وہ بھی۔ اب وہ میرے آفس میں لٹکا رہتا ہے آئن اسٹائن کی تصویر کے ساتھ جس پر لکھا ہے کہ “وہ بن جاؤ جو اس بات کو بدل دے کہ کیا ممکن ہے۔” جیسے گاندھی جی نے کہا کہ “دنیا میں‌ وہ تبدیلی خود بن جاؤ جو تم اس میں‌ دیکھنا چاہتے ہو۔” مطلب یہ کہ ہمارا اپنا دل یقین سے خالی بھی ہو اور شکوک سے بھرا بھی ہو تو بھی کیا ضرورت پڑی ہے کہ جاکر بلاوجہ ان لوگوں‌ کو پتھر ماروں‌ کہ میری طرح‌ سوچو۔ ہم ان کے جوتوں‌ میں‌ نہیں‌ چل رہے ہیں۔ ہر انسان کی سچؤیشن الگ ہے۔

ایک انسان کے مر جانے سے اس کے پیچھے جو خلا بن جاتا ہے اس کے پیارے کیسا محسوس کرتے ہیں اس کے بارے میں‌ وہی کچھ سمجھ سکتا ہے جس نے خود کھویا ہو۔ کہتے ہیں‌ کہ کوئی بھی انسان اس دنیا سے اس وقت مکمل طور پر جاتا ہے جب ہر وہ انسان بھی جا چکا ہو جو اس کی یاد رکھتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی اہم ہے۔ انسانی جان کے زیاں کو نہ ہی کوئی معمولی بات سمجھنا چاہئیے اور نہ ہی اس کو معمول بنانا چاہئیے۔

زندگی قیمتی ہے اور ایک بار ہی ملتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).