آج ناصر کاظمی کا یوم پیدائش ہے


(ناصر کاظمی کے یوم پیدائش پر مشفقی ڈاکٹر ساجد علی کی خصوصی تحریر)

میں نے جس گھرانے میں شعور کی آنکھ کھولی وہاں اقبال، اکبر الہ آبادی اور حالی کے اشعار سننے کو ملے۔  جب نویں جماعت میں پہنچا تو اردو کے نصاب میں میر تقی میر، میر درد اور مرزا غالب کی تین تین غزلیں شامل تھیں؛ چودہ پندرہ برس کی عمر میں جب میر صاحب کی یہ غزل پڑھی : فقیرانہ آئے صدا کر چلے، تو ایک عجیب کیفیت کا تجربہ ہوا۔ اس کے علاوہ غالب کے مرثیہ عارف نے بھی دل پر بہت رقت طاری کی۔ نصاب میں شامل غزلوں کو پڑھنے کے بعد اس طرح کی مزید شاعری کی جستجو شروع ہوئی۔  ایک نوٹ بک بنائی جس میں اپنے پسندیدہ اشعار درج کرنے شروع کیے۔  گھر میں اردو ڈائجسٹ آتا تھا۔  اس میں ایک دفعہ ناصر کاظمی نام کے کسی شاعر کے یہ دو شعر نظر سے گزرے جو بہت پسند آئے اور میں نے اپنی نوٹ بک میں درج کیے تھے۔

کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے

رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے

دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے

کبھی اس شخص کو ہم پیار کیا کرتے تھے

گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہونے کے دوسرے سال میں نوائے وقت کے سرراہے کالم میں ناصر کاظمی کی یہ غزل درج تھی جسے اپنی بیاض میں نقل کیا:

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

تاہم ناصر کاظمی کا نام نہ کبھی کسی ہم جماعت سے سنا نہ اپنے استادوں سے۔  اس لیے دو اشعار اور ایک غزل سے زیادہ کوئی جانکاری نہ ہو سکی۔  اسی زمانے میں ٹیلی وژن کے کراچی سنٹر سے ایک بہت بڑا مشاعرہ نشر ہوا تھا جس میں ملک کا ہر قابل ذکر شاعر موجود تھا۔  سب سے آخر میں جوش ملیح آبادی نے اپنا کلام سنایا تھا۔  ناصر کاظمی بھی اس مشاعرے میں موجود تھے لیکن غیر مانوس ہونے کی بنا پر مجھے ان کا شعر سنانا یاد نہیں۔  اسی برس بخاری آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والے ایک مشاعرے میں بھی وہ تشریف لائے لیکن یہ واقعہ بھی میری یاداشت میں محفوظ نہیں۔  اس وقت مجھے مشہور لوگوں سے آٹو گراف لینے کا بہت شوق تھا۔ ناصر کاظمی کی وفات کے بعد میں نے ایک بار اپنی آٹوگراف بک دیکھی تو اس میں ان کے دستخط کے ساتھ یہ شعر لکھاہوا تھا:

واقعہ یہ ہے کہ بدنام ہوئے

بات اتنی تھی کہ آنسو نکلا

جب میں سال چہارم میں تھا تو ہفتہ وار گورنمنٹ کالج گزٹ کے اردو سیکشن کا مدیر منتخب ہو گیا۔  موسم گرما کی آمد تھی۔  ہم نے کالج کے طلبہ کو اس موضوع پر قطعات لکھنے کی دعوت دی۔  دو قطعات جو مجھے زیادہ پسند آئے وہ باصر سلطان کاظمی اور حسن سلطان کاظمی کے تھے۔  میں نے دریافت کیا کہ یہ دونوں کون ہیں تو شاہد مسعود نے بتایا کہ مشہور شاعر ناصر کاظمی کے فرزند ہیں۔  اس واقعے کے کچھ دیر بعد ایک دن وحید رضا بھٹی مجھے باصر سے ملوانے اس کے گھر لے گیا اور یوں باصر سے دوستی کا آغاز ہوا۔

جب میں ایم اے کے سال اول میں داخل ہوا تو مجھے مجلس اقبال کا سیکریٹری مقرر کیا گیا۔  باصر نے جب یونین کا الیکشن جیتا تو بہت سے طلبہ ایک جلوس کی صورت میں ناصر کاظمی کو ملنے میو ہسپتال کے البرٹ وکٹر وارڈ پہنچے۔  اس وقت میں نے بھی ان سے ہاتھ ملایا۔  یہ 10 فروری 1972 ءکی تاریخ تھی۔  بس اس لمحہ گریزاں کی ایک جھلک میرے حافظے میں محفوظ ہے ۔  2 مارچ بروزجمعرات کی صبح میں بخاری آڈیٹوریم کی سیڑھیوں پر کھڑا تھا جب وحید نے آ کر بتایا کہ رات ناصر کاظمی کا انتقال ہو گیا ہے۔  ہم کالج سے نکل کر مختلف اخبارات کے دفاتر میں خبر پہنچانے کے بعد سہ پہر کے وقت ناصر کاظمی کی رہائش گاہ پر پہنچے۔  کچھ دیر کے بعد جنازہ اٹھایا گیا اور کرشن نگر سے مومن پورہ کے قبرستان کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے کا زیادہ تر حصہ باصر میرا ہاتھ پکڑ کر چلتا رہا۔

 نو مارچ کومجلس اقبال کا اجلاس ہوا جوناصر کاظمی کی یاد میں ہونے والا اولین تعزیتی اجلاس تھا۔  اس نشست میں انتظار حسین اور سجاد باقر رضوی نے مضامین پڑھے، جیلانی کامران اور اشرف عظیم نے نظمیں سنائیں اور باصر نے غزل پیش کی تھی۔  جمعرات سولہ مارچ کو گزٹ کا خصوصی شمارہ ناصر کاظمی کی یاد میں شائع ہوا۔

ناصر کاظمی کے گھرانے کے ساتھ تعلق کا آغاز ہو چکا تھا مگر ناصر کی شاعری سے ا بھی تک کوئی تعارف نہیں تھا۔  اگلے بر س گرمیوں کی چھٹیوں میں رحیم یار خان جاتے ہوئے ملتان کینٹ کے ریلوے سٹیشن سے” برگ نے“ خرید ی جس کا تازہ ایڈیشن کئی سال کی تعویق کے بعد اسی برس شائع ہوا تھا۔  جب میں نے کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو ناصر کی شاعری کے سحر نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا تاہم ایک حیرت انگیز صدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔  اس وقت تک میں ناصر پر شائع ہونے والی بہت سی تعزیتی تحریریں پڑھ چکا تھا جن میں ہجرت کے تجربے کا بہت ذکر ہوتا تھا بلکہ ایسا تاثر ملتا تھا کہ وہ بس ہجرت کا شاعر ہے لیکن کتاب میں ہجرت کا تجربہ بیان کرنے والی کل ڈھائی غزلیں ہیں۔  واپسی کے سفر پر ملتان کے ہی اسٹیشن سے میں نے” دیوان“ بھی خریدا۔  پہلی خواندگی میں نظیر صدیقی صاحب کی بات سچ دکھائی دینے لگی کہ ”برگ نے“ کے بعد ناصر کی شاعری زوال کا شکار ہے۔ مجلہ فنون کے جدید غزل نمبر میں نظیر صدیقی کا شائع ہونے والا مضمون میں پڑھ چکا تھا۔  مجھے اس پر کوئی اچنبھا نہیں ہوا کہ بہت سے شاعروں کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کیفیت سے دوچار ہو چکا تھا۔  عام مشاہدہ یہی ہے کہ پہلی کتاب کے بعد ڈھلوان کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ البتہ اس وقت تک میں کتاب کو تیز رفتاری سے پڑھنے کی عادت کسی حد تک ترک کر چکا تھا اس لیے دیوان کا سہج سہج ،دھیرے دھیرے مطالعہ شروع کیا اور اسے اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی تو ناصر کی شاعری کے رنگ کھلتے چلے گئے۔  اندازہ ہوا کہ دیوان تو برگ نے سے بہت آگے کی چیز ہے۔

جب کالج یونین کی سرگرمیوں کی بنا پر میں پولیس رپورٹ میں سرکاری نوکری کے لیے نااہل قرار پایا تو کتابوں کی اشاعت کا پروگرام بنایا۔  باصر اور جاوید اقبال اعوان کے ساتھ مل کر مکتبہ خیال کی بنیاد رکھی اور اس کی جانب سے ناصر کاظمی کی کتاب ”نشاط خواب “ کا پہلا ایڈیشن اپریل 1977ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کی اشاعت میں صلاح الدین محمود صاحب نے ہماری بہت مدد کی۔  کتاب کے سرورق کے لیے باصر اور میں محترمہ سلیمہ ہاشمی صاحبہ کے پاس نیشنل کالج آف آرٹس گئے اور ان سے استدعا کی کہ وہ اپنے کسی شاگرد سے ٹائٹل بنوا دیں۔  کچھ دن بعدجب ہم دوبارا ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے ٹائٹل ہمارے حوالے کیا۔  باصر نے پوچھا کہ یہ کس نے بنایا ہے؟ اس پر انہوں نے کسی قدر جھجکتے ہوئے جواب دیا: میں نے بنایا ہے۔  ہمارے لیے یہ بات بہت غیر متوقع تھی۔  اس عطا پر ہم نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا۔

ناصر کاظمی کا شعری مقام و مرتبہ کیا ہے، اس کا فیصلہ کرنا نقادوں کا کام ہے مگر مجھے ایک بات کی خوشی ہے کہ شاعری کا عام قاری نقادوں کی مدح و قدح کی پروا نہیں کرتا اور مطالعے کے لیے اپنے ذوق سلیم پر انحصار کرتا ہے۔  اسی طرح جیسے ہمارا عام ووٹر سیاسی شعور سے مالامال تجزیہ کاروں کی آرا کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی پسند سے ووٹ ڈالتا ہے۔  ایک زمانے میں نقاد حضرات جن شاعروں پر طول طویل مقالے اور ضخیم کتابیں لکھ لکھ کر ان کے کلام کے محاسن پر لہلوٹ ہوتے تھے، ان کا ایک شعری مجموعہ بھی آج مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتا۔  ناصر کو اس دنیا سے رخصت ہوئے آج پینتالیس برس گزر چکے ہیں، اس کی تمام کتابیں اس کی وفات کے بعد شائع ہوئی ہیں، لیکن ان کے ایڈیشن پر ایڈیشن چھپ رہے ہیں اور اس کی شاعری کے قارئین اور مداحین کا حلقہ مسلسل پھیلتا چلا جا رہا ہے۔  اصیل شاعری کو اپنا راستہ بنانے کے لیے نقادوں کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔  سچے شاعر کی نوا از خود ہزاروں کی نوا بن جاتی ہے۔

ناصر کی وفات سے ایک ماہ قبل، دو فروری کو،پی ٹی وی نے ان کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا تھا۔  اس میں انتظار حسین کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:” ۔ ۔ ۔  مجھے تو سپین کا شاعر لورکا بھی پسند ہے۔  گارسیا لورکا اور تمہیں پتہ ہے کہ میں اسے ایسے پڑھتا ہوں جیسے میر ۔۔۔  میں نے ان شاعروں کو اس لیے پڑھا کہ وہ مجھے اتنے پسند تھے کہ یوں لگتا تھا کہ یہ کلام یا تو میرا ہے یا مجھے لکھنا چاہیے تھا۔۔۔  میں تو انہیں اپنا ہم عصر سمجھتا ہوں۔  خواہ وہ میرا بائی ہوں، خواہ وہ لورکا ہو، خواہ وہ کالی داس ہو، خواہ وہ رامبو ہو۔  تو یہ تو سارے میرے ہم عصر گزرے ہیں۔ “

اس کے علاوہ ناصر کو بودلیراور کیٹس بھی بہت پسند تھے۔  لورکا، رامبو ، بودلیراور کیٹس بھی ناصر کی طرح جوانا مرگ تھے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اپنی وفات کے پچیس برس بعد ناصر اپنے ان” ہم عصرشاعروں“ کے ساتھ ہالینڈ کے مشہور شہر لائڈن میں شریک محفل ہوا۔  لائڈن شہر کی انتظامیہ نے دنیا کی مختلف زبانوں کے انسٹھ شاعروں کی نظموں پر مشتمل ایک انتھالوجی، ڈچ ترجمے کے ساتھ، شائع کی (GEDICHTEN IN LEIDEN Dicht op de murr 2: ) اور ان کی نظموں کو شہر کی مختلف عمارتوں کی دیواروں پر منقش کیا۔  ان منتخب شاعروں میں لورکا، رامبو ، بودلیراور کیٹس کے ساتھ ناصر کاظمی بھی شامل ہیں۔ ناصر اپنی زندگی میں خواہش کے باوجود ہالینڈ نہ جا سکا، مگر آج اس کی یہ غزل لائڈن کی ایک عمارت کی دیوار پر ثبت ہے۔

 زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا

سخن کدہ مری طرز سخن کو ترسے گا

نئے پیالے سہی تیرے دور میں ساقی

یہ دور میری شراب کہن کو ترسے گا

مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی

وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا

انہی کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں کے چراغ

زمانہ صحبت ارباب فن کو ترسے گا

بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ورنہ

یہ باغ سایہ سرو و سمن کو ترسے گا

ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اک دن

زمین پانی کو، سورج کرن کو ترسے گا

 یہاں ایک اور حسن اتفاق کا تذکرہ کرنا بے محل نہ ہو گا۔  شاعری عام طور پر وراثت میں منتقل نہیں ہوتی مگر ناصر اس معاملے میں بھی خوش نصیب واقع ہوا ہے۔  اس کے فرزند باصر کاظمی کا ایک شعر، مع انگریزی ترجمہ، دنیا کی دس مختلف زبانوں کے شاعروں کے کلام کے ساتھ لندن کے قریبی قصبہ سلاؤ کے ایک چوک میں پتھر پر کندہ کرکے نصب کیا گیا۔  ان دس شعرا میں فلسطین کے مشہور شاعر محمود درویش بھی شامل ہیں۔  شعر یہ ہے:

دل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو

پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو

سچ ہے کہ پھول تو پھول ہوتا ہے وہ لاہور میں کھلے یا لائڈن میں اور خواہ لندن میں۔  ناصر نے اپنے بارے میں جو کہا تھا وہ محض شاعرانہ تعلی نہیں تھی کیونکہ اس کی شاعری کی روشنی کتنے ہی امصار و دیار میں دلوں کو منور کر رہی ہے اور ایک زمانہ اس کی صداقت کی گواہی دے رہا ہے:

ناصر یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آب دار

اس فن میں کی ہے میں نے بہت دیر جاں کنی

ہر لفظ ایک شخص ہے، ہر مصرع آدمی

دیکھو مری غزل میں مرے دل کی روشنی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).