جمہوریت، علیحدگی پسند تحریکیں اور کشمیر


بھلا ہو جمہوریت کا، وہ جو ابراہم لنکن نے اس کے بارے میں جو کہا تھا کہ لوگوں کی اپنی حکومت، لوگوں کے اپنے لئے، اس پر پوری اترتی ہے۔ جمہوریت ایک مشکل طرز حکومت ہے اور پھر اس کا رواج پڑنے میں تھوڑا وقت بھی درکار ہوتا ہے۔ مگر جہاں جہاں جمہوریت کو موقع دیا گیا ہے وہاں لوگ اس کا میٹھا پھل بہت مزے سے کھا رہے ہیں۔ یہ جمہوریت کا ہی ایک حسن ہے کہ اب آزادی کی تحریک، یا یہ کہنا کہ میں اپنے علاقے یا صوبے کو الگ ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں، جرائم کی لسٹ سے نکلتا جا رہا ہے۔

آپ نے 2014ء میں ہونے والے سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کا تو سنا ہو گا۔ یہ ریفرنڈم اس لئے کروایا گیا تھا کیونکہ سکاٹ لینڈ میں کچھ لوگ آزادی چاہتے ہیں۔ وہ سکاٹ لینڈ کو برطانیہ سے الگ ملک بنانا چاہتے ہیں۔ برطانیہ نے اپنے قانون میں گنجائش نکالی اور علیحدہ وطن کا مطالبہ جرائم کی لسٹ سے نکال دیا۔ لہٰذا سکاٹ لینڈ کو اس بات پر ریفرنڈم کرانے کا موقع مل گیا۔ دونوں طرف کے لوگوں نے بہت جذبے کا مظاہرہ کیا اور 84.6 فیصد نے ووٹ ڈالے۔ اس ریفرنڈم میں اگر زیادہ لوگ سکاٹ لینڈ کو برطانیہ سے الگ ملک بنانے کے حامی ہوتے تو سکاٹ لینڈ ایک الگ ملک بن جاتا۔ لیکن علیحدگی پسند ووٹ کے ذریعے ہار گئے۔ سکاٹ لینڈ برطانیہ کا ہی حصہ رہا کیونکہ 55  فیصد سکاٹش یہی چاہتے تھے۔

کمال یہ تھا کہ ایک گولی نہیں چلی، ایک بھی شہری کو گرفتار نہیں کیا گیا، ایک بھی نوجوان کو غائب نہیں پایا گیا، کوئی مسخ شدہ لاش نہیں ملی، ایک بھی سیاسی رہنما غدار نہیں قرار دیا گیا اور فیصلہ ہو گیا کہ سکاٹ لینڈ برطانیہ کا حصہ رہے گا۔ آزادی کی تحریک تقریباً ختم ہو گئی۔ کسی کی کوئی بے عزتی نہیں ہوئی۔ یہ اتنے آرام سے اس لئے ہو گیا کیونکہ جمہوریت نے عملی طور پر علیحدگی پسندی کو جرائم کی لسٹ سے نکال کر حقوق کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ برصغیر کی جمہوریتوں خاص طور پر مودی جی کو اس سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

ہم بھی اگر علیحدگی پسندی کو جرائم کی لسٹ سے نکال دیں اور اس بات کو لوگوں کا حق مان لیں تو حالات کافی بہتر ہو سکتے ہیں۔ اس طرح سے علیحدگی پسندوں کو چھپ کر کام کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ جب حکومت ان پر کوئی مقدمہ چلا رہی ہو نہ گولی تو علیحدگی پسندوں کے پاس مظلومیت کا کارڈ نہیں ہو گا اور وہ بہت سے لوگوں کو اپنے ساتھ نہیں ملا پائیں گے۔ ہمارے پڑوسی ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔ اب علیحدگی پسندوں کی کامیابی کا انحصار اکثریتی رائے پر ہو گا۔ لہٰذا ان کے غیر قانونی ہتھکنڈے ان کے اپنے ہی خلاف جائیں گے۔

یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر علیحدگی پسندی کو جرائم کی لسٹ سے نکال دو تو علیحدگی پسند لیڈروں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ اور حکومت (یا ریاست) کو تحریکیں کچلنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یعنی علیحدگی پسندی کو جرائم کی لسٹ سے خارج کر دو۔ علیحدگی پسندی کے جرم میں جن لوگوں کو پکڑا ہوا ہے ان کو چھوڑ دو۔ مظلومیت کا کارڈ ان سے چھن جائے گا اور ملک میں امن ہو جائے گا۔ علیحدگی پسند بہت کمزور ہو جائیں گے۔ ہمارے جو دفاعی وسائل تحریکوں کی جاسوسی کرنے اور روکنے کے لئے صرف ہو رہے ہیں وہ بھی بچ جائیں گے اور ہم وہی وسائل ان علاقوں میں نوجوانوں کی محرومیاں دور کرنے پر خرچ کریں تو پرابلم خود بخود ختم ہو جائے گا۔
اگر پاکستان نے علیحدگی پسندی کا معاملہ جمہوری طریقے سے طے کر لیا تو پھر ہمارے پاس اخلاقی جواز ہو گا کہ ہم بھارت سے بھی علیحدگی پسندی کو جرائم کی لسٹ سے نکالنے کا مطالبہ کریں۔ بھارت بھی کشمیر کے مسئلے کو جمہوری طریقے سے حل کرنے پر مجبور ہو جائے گا اور کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل ہو سکے گا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik