لعل شہباز قلندر اور دھمال


ابراہیم مجاب حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضے میں بہت آتے اور وہیں ان کا ٹھکانہ تھا۔ ابراہیم مجاب کو سرکار امام حسین علیہ السلام سلام کا جواب دیتے تھے۔جو لوگ سرکار امام حسین علیہ السلام کے روضے کی زیارت کر چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس روضے میں حضرت ابراہیم مجاب کی قبر مبارک ہے۔ وہ شادی نہیں کرنا چاہتے تھے صرف روضے کی خدمت میں زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ ابراہیم مجاب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے پڑپوتے اور امام حسین علیہ السلام کی ساتویں نسل میں سے تھے۔
ان کے خواب میں سرکار امام حسین تشریف لائے اور فرمایا کہ ابراہیم تم مروند جاو¿اور وہاں کے بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرو۔ وہ تمہیں اپنی بیٹی کا رشتہ دے دے گا۔ پھر ہم تمہیں ایک امانت دیں گے۔ وہ شہباز جو رسول اللہ نے ہمیں دیا ہے ہم تمہارے سپرد کریں گے۔
حکم پا کر حضرت ابراہیم مجاب مروند آئے ، شادی کی اور ان کے ایک بیٹا ہوا۔ پیدائش کے وقت ایسا سرخ چہرہ جیسے یاقوت۔ ماں کے منہ سے نکلا ’لعل‘ اور باپ کے منہ سے نکلا ’شہباز‘ آگیا۔ نام نکالا گیا تو نکلا ’شاہ حسین‘۔ نانا نے کہا اس نام پر قتل کردیا جائے گا اس لئے ان کا نام رکھا گیا سید عثمان۔
جب حسین نے عطا کیا تھا تو کچھ خصوصیت تو ہونی تھی۔ علم آسمانی عطا ہورہا تھا۔ دل نہ لگتا تھا۔ ایک بار مدرسے کے ساتھیوں کی کتابیں حوض میں ڈال دیں۔ ساتھیوں نے رونا شروع کیا تو ہاتھ ڈال کر کتابیں نکال دیں۔ کتابیں بالکل خشک تھیں۔ سات سال کی عمر میں پورا قرآن حفظ کرلیا۔ اساتذہ حیران تھے کہ یہ بچہ مدرسہ میں ایک لفظ نہی پڑھتا تو حفظ کیسے ہوا۔ان کے بچپن کے دوست نے فرمایا کہ یہ ببول کے کانٹوں پر چلتا ہے اور نہ جانے اس کوکیا نظر آتا ہے کہ یہ یا حسین یا حسین کی صدا دیتا ہے اور پیروں سے خون جاری رہتا ہے۔
پھر مروند سے آذربائیجان ، افغانستان ، کشمیر ، ملتان سے ہوتے ہوئے سندھ پہنچے جہاں سہون کو مسکن بنایا۔ مرزا قلیچ بیگ جو حیدرآباد دکن کے تھے ان کے پوتے نے کچھ تبرکات دکھائے جو ان کو جدی پشتی منتقل ہورہے تھے۔ انہوں نے صندوق سے ایک طوق نکالا۔ یہ وہ طوق تھا جو امام زین العابدین کو کربلا سے شام تک پہنایا گیا۔ اس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ ایک پتھر کی چٹان تھی جس میں گردن کے حصے کو کاٹ کر اسے گردن میں پہنادیا گیا اور اس کا وزن پورے شانوں اور ہاتھوں پر تھا۔ ہاتھوں کو صلیب کی طرح رکھنا پڑتا اور ہاتھوں کے نیچے دو اور پتھر کی سلیں رکھ کر لوہے کی کیلوں سے باندھ دیا جاتا اور پھر جب پیچھے سے تازیانہ مارا جاتا تو امام آگے کی طرف وزن کو سنبھالتے ہوئے جھکتے ، کبھی دائیں جانب کبھی بائیں جانب کبھی آگے۔ اور عرب کی جھلسا دینے والی گرمی میں جب وہ طوق گرم ہوتا تو گردن اورہاتھوں پرچھالے پڑجاتے۔ اس طوق کا آدھا حصہ قلیچ بیگ کے دکن میں اور باقی آدھا حصہ قلندر سائیں کی قبر پر لٹکا ہوا ہے۔ قلندر سائیں عاشور کے روز ویسا ہی طوق بنا کر پہن لیتے اور عاشور کے جلوس میں اسی انداز میں جاتے ، کبھی آگے گرتے ، کبھی دائیں ، کبھی بائیں۔ جو لوگ ان کو دیکھتے وہ بھی اسی طرح کرنے کی کوشش کرتے ۔اس طرح قلندر سائیں کے غم منانے کے اندازکا نام دھمال پڑا۔ لفظ دھمال فارسی کے دو الفاظ ’دہ‘اور’میل‘سے لیا گیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ دس میل ، مولا سجاد علیہ السّلام نے کربلا سے شام تک جو سفر طے کیا ، شہنشاہِ سیون شریف عثمان شاہ مروندی المعروف شہباز قلندر سرکار اپنے جد مولا اِمام زین العابدین علیہ السّلام کی اسی یاد کو تازہ کرنے کے لئے اور درد مصائب کی نیت سے ’دس میل‘ کا سفر طے کرتے تھے ، اِسی عمل کو بعد میں ’دھمال‘ نام دیا گیا ، اور ایک ہی جگہ اِتنی دفعہ پاو¿ں زمین پہ مارے جاتے کہ دس میل کا سفر طے ہو جائے ، جس کو آج غلط رنگ دیا جا رہا ہے ، جبکہ شہباز قلندر سرکار مصائب کی نیت سے اِس عمل کو انجام دیتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).