منو بھائی اور ہمارا گریبان


 انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ’’ ملٹی میڈیا‘‘ شاید واحد اصطلاح ہے جو بہت کم عرصہ میں بہت زیادہ معروف ہوئی ۔ مختلف کل پرزوں کی مجموعی افادیت کو ظاہر کرنے والی اس اصطلاح کو اگر میڈیا کی کسی کی شخصیت پر منطبق کرنے کی کوشش کی جائے تویقیناً منو بھائی سے زیادہ موزوں شخص کوئی اور نہیں ہو گا جس کے لیے اسے استعمال کیا جاسکے۔ یہاں ایسی شخصیات تو کئی ہو سکتی ہیں جن کے متعلق کہا جاسکے کہ انہیں کون نہیں جانتا مگر ان میں چند ایک ہی ایسے ہوں گے جن پر یہ اعتماد کیا جا سکے کہ وہ بھی سب کو جانتے ہیں۔ جن لوگوں نے منو بھائی کی تحریریں پڑھی اور ڈرامے دیکھ رکھے ہیں وہ بخوبی آگاہ ہوں گے کہ جس شخص کے لیے سب کو جاننے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اس کے لیے یہ یقین کس حد تک درست ہے۔ منو بھائی کی ہر علمی و ادبی کاوش اپنی جگہ پر ایک شاہکار ہے۔ اگر کسی کے پاس ان کی تمام کاوشوں سے مستفید ہونے کا وقت نہ بھی ہو تو یہ جاننے کے لیے کہ منو بھائی ہمیں کس حد تک جانتے ہیں وہ صرف اس لوگو پر غور کر لے جو عرصہ دراز سے شائع ہونے والے ان کے کالم کا مستقل حصہ ہے۔

گریبان کے نام سے شائع ہونے والے منوبھائی کے کالم کا ’’لوگو‘‘ اس پتلے کا خاکہ ہے جسے فصلوں کو پرندوں کی چونچوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بوائی سے کٹائی تک کے عرصہ کے دوران کھیتوں میں آویزاں کر دیا جاتا ہے۔ اس پتلے کو اردو میں ’’ کوئے ہکنی ‘‘ اور انگریزی میں scare crow کہتے ہیں۔ ’’ کوئے ہکنی‘‘ کی تیاری کے لیے لکڑیوں سے بنائی گئی صلیب کو پرانے کپڑے پہنا کر پتلے کی شکل دی جاتی ہے اور پھر مٹی کی ہانڈی کی طرح کا برتن سر کی جگہ رکھ کر اسے پگڑی سے آراستہ کرنے کے بعد کھیت میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ ایسے پتلے کو کھیتوں میں کھڑا کرنے کا مقصد ہوتا ہے کہ پرندے یہ سمجھ کر وہاں سے دور رہیں کہ فصل کے درمیان کو ئی انسان کھڑا ہوا ہے۔ یہ روایت صرف برصغیر کے کسانوں کا خاصا نہیں ہے بلکہ جاپان ، یورپ اور امریکا کے کاشتکار بھی اپنی فصلوں کو پرندوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اسی ترکیب پر عمل کرتے ہیں۔ منو بھائی کے کالم ’’ گریبان‘‘ کا لوگو بننے والے پتلے کی خاص بات یہ ہے کہ اسے کھیت میں کھڑا تو کوؤں کو ڈرانے کے لیے کیا گیا ہے مگر ایک کوا اس سے ڈرنے کی بجائے اس کے سر پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ بات تو منو بھائی خود ہی زیادہ بہتر طور پر جانتے اور بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کالم کا لوگو ایک چاک گریباں پتلے کو کیوں بنا رکھا ہے۔ مگر ، انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو کیوں کہ خود سے اپنی تخلیقات کی تفہیم کرنے کی جو آزادی دے رکھی لہذا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی بھی اپنے تئیں اس گتھی کو سلجھا نے کی کوشش کر سکتا ہے۔ جس کالم کو منو بھائی کا گریبان کہہ کر پڑھا جاتا ہے اس سے جڑا ہوا پتلا اصل میں منو بھائی کا نہیں بلکہ ہمارا اپنا گریبان ہے۔ یہ چاک گریباں اس قدر عیاں ہے کہ کوئے پر اس کی اصلیت واضح ہو چکی ہے۔ اسی لیے وہ کوا پتلے کے سر پر بیٹھ کر اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ مگر حیرت ہے کہ چاک گریباں پتلا اس کے باوجود بڑے طمطراق کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کا یہ زعم برقرار رہا لگ رہا ہے کہ کوا اس سے ڈر جائے گا۔

منو بھائی کے کالم سے منسلک پتلے کی مذکورہ توضیح کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے سماج کے مختلف حصوں درجوں اور شعبوں کو کھیت اور ان کے جغادری ناصحین و محتسبین کو محافظ پتلے تصور کر یں تو یہ سمجھنا آسان ہو گا کہ کیوں ہمارے باغ بے پھل و پھول ہیں، کیوں ہماری فصلیں اجڑ چکی ہیں اور کیوں ہمارے احساس کی آبیاری کرنے والے سوتے خشک ہو چکے ہیں۔ ان تمام ’’کیوں‘‘ کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے تئیں خود کو سماج کی حفاظت، نصیحت اور احتساب کے لیے مامور کر رکھا ہے ، ان کی ذات، صفات اور حیثیت کھیت میں کھڑے چاک گریباں پتلے سے زیادہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان چاک گریباں پتلوں کا فصلوں کی نگہبانی کا کام درست طور پر نہیں ہو پا رہا اور ان کے چاک گریبانوں کو دیکھ کر کوئے ڈرنے کی بجائے ان کے سروں پر بیٹھ کر فضلہ پھینک رہے ہیں۔

منو بھائی صرف ہمیں جانتے ہی نہیں بلکہ اپنے کالم کے لوگو کے ذریعے یہ دکھاتے بھی ہیں کہ ہم کیا ہے۔ مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی نہ ہماری عادت اور نہ ہی ہمت ۔ ہمارے سامنے آئینے کی شکل میں تقریباً روزانہ منو بھائی کا کالم موجود ہوتا ہے مگر اس میں نظر آنے والا چاک گریبان ہمیں اپنا نہیں بلکہ دوسروں کا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں ناصح مطلق بنے بیٹھے اینکر پرسنوں کے متعلق کون نہیں جانتا کہ کسی چینل کے ساتھ وابستہ یاغیر وابستہ ہونے کے لیے ان کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں مگر اس بات سے بے نیاز ہوکر وہ بڑی آسانی اور شوخی سے سیاستدانوں کو لوٹے ہونے کا طعنہ دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے بھی وہ اس حد تک احتیاط کرتے ہیں کہ کوئی ممدوح سیاستدان ان کی زد میں نہ آ جائے۔ سیاستدانوں کو یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ اپنے مخالفین کو جن صفات کی بنا پر وہ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ صفات انہوں نے اپنے اندر کس قدر کوٹ کوٹ کر بھر رکھی اور ان کے اپنے احباب میں منفی قرار دی گئیں صفات کے حامل لوگ کس قدر وسیع تعداد میں موجود ہیں۔ یہاں بلا تعصب و بلاتفریق انصاف کے لیے مامور کیے جانے والے منصفین کی کاکرکردگی سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ کس کے لیے نرم اور کس کے لیے گرم گوشہ رکھتے ہیں مگر پھر بھی وہ اصرار کرتے ہیں کہ ان کا احترام ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ آسمانوں کو چھوتی ہوئی لاقانونیت کے باوجود قانون کے محافظ کہتے ہیں کہ انہیں چوروں کا ساتھی نہ سمجھا جائے۔ دہشت گردوں کے پالن ہار ان کی کمر توڑنے کے دعوے کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے کبھی یہ کہا تھا کہ جب سوچ میں یکسانیت ہے تو دہشت گرد ان کے صوبے میں کاروائی کیوں کرتے ہیں آج وہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی ختم کر کے دم لیں گے۔ مذکورہ بالا لوگ اپنے متعلق اگر کسی خام خیالی کا شکار ہیں تو صبح اٹھنے کے بعد آئینہ نہیں بلکہ منو بھائی کے کالم کا لوگو ضرور دیکھ لیا کریں۔

ایک خاص لوگو سے مزین ہونے کے باوجود نہ تو منو بھائی کا کالم اور نہ ہی ان کی ذات کبھی رجائیت سے خالی نظر آئی ہے۔ منو بھائی نے اپنے قارئین کو ہمیشہ امیدیں قائم رکھنے اور جدوجہد کرتے رہنے کا درس دیاہے ۔ ہو سکتا ہے یہ امیدیں بر آئیں اور ان کے کالم کے لوگو سے کبھی وہ کوا غائب ہوجائے جو ہمیشہ چاک گریباں پتلی کے سر پر بیٹھا نظر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).