پی ایس ایل کا فائنل۔ کیوں ضد پر اڑے ہیں بھائی


کرکٹ سے میرا لگاو بہت پرانا ہے۔ محبت کی یہ کہانی بچپن سے شروع ہوئی اور کچھ اتار چڑھاؤ کے ساتھ اب تک جاری و ساری ہے۔ 2009ء میں سری لنکا کی ٹیم پر حملے کے وقت میں پاکستان سے باہر تھی۔ پہلے تو مجھے یقین تھا کہ یہ جھوٹی خبر ہے لیکن جب ہر جگہ سے تصدیق ہو گئی تو سر شرم سے جھک گیا۔ مجھے یاد ہے انگلینڈ میں ،میں جہاں کام کرتی تھی وہاں میرا باس بھی کرکٹ کا بہت فین تھا۔ اس نے خبر سن کر کہا’ مجھے کرکٹ سے بڑی محبت ہے، مجھے یقین ہے کہ پاکستانیوں کو بھی ہو گی لیکن یہ محبت گولیوں کے سائے میں نہیں ہو سکتی‘۔ اب لوگ یہ تو ضرور کہتے ہیں کہ بھارت کی سازش تھی لیکن شاید سب بھول گئے ہیں کہ اس حملے کی خالص ذمہ داری انتہائی کم سکیورٹی تھی جو کہ سری لنکا کی ٹیم کو دی گئی تھی۔ ہمیشہ کی طرح کہا گیا کہ حملے کی خبر پہلے سے ایجنسیز حکومت کو دے چکی تھیں۔ ہاں یہ بتانا بھول گئے کہ حملہ روکنا کس کی ذمے داری تھا۔ ہمارے جانباز پولیس والے جان سے گئے اور انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان سے روٹھ گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ 2009ء سے اب تک ہم اپنے لوگوں کو تحفظ نہیں دے سکے تو باہر والوں کو کس منہ سے ملک میں بلا سکتے ہیں۔ اب پی ایس ایل کے فائنل کا شور سننے میں آرہا ہے جس کے لئے انٹرنیشنل پلیئرز، براڈ کاسٹر اور مبصرین پاکستان آنے سے صاف انکار کر چکے ہیں لیکن ہم ہیں کہ ضد پر اڑے ہیں نہیں جناب ہم تو یہاں ہی فائنل کروائیں گے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ فائنل پاکستان میں نہ کروانے کی رائے بس مخالفت برائے مخالفت ہے تو یقینا آپ ریت میں سر دے کر بیٹھے ہیں۔لاہور میں پنجاب پولیس پر ہونے والے خودکش حملے کا مددگار جب پکڑا گیا تو اس نے انکشاف کیا کہ خود کش جیکٹ اس کے پاس بیس پچیس دن پہلے پہنچ گئی تھی۔ وہ اور خود کش حملہ آور انتظار میں تھے کہ کوئی ٹارگٹ ملے تو اس پر حملہ کریں۔ بدقسمتی سے اس دن اپنی ریکی میں انہوں نے پولیس والوں کا رش دیکھا، گھر واپس گئے ،جیکٹ پہنی اور آ کر حملہ کر دیا۔ یہ بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اندازہ ہو پنجاب یا لاہور میں نہ جانے کتنے لوگ سلیپنگ سیلزمیں حملہ کرنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت کو ابھی ہوش آیا ہے کہ پنجاب میں بھی آپریشن ہونا چاہیے۔ اس آپریشن کے ابتدائی مراحل میں ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان حالات میں کرکٹ کروانا اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے والی بات ہے۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ آخر خود کش حملے کو کیسے روکا جا سکتا ہے ؟ آپ اس کو جہاں روکیں گے وہ وہاں اپنے آپ کو اڑا دے گا۔28 ہزار کی گنجائش والے قذافی سٹیڈیم کے شائقین اور 12 ہزار پولیس والے جانے کتنے خود کش حملہ آوروں کا ٹارگٹ ہیں۔ آخر ایسی کیا مصیبت پڑی ہے کہ یہ فائنل اسی سال پاکستان میں ہونا چاہیے۔ بندوقوں کے سائے میں ہونے والے فائنل سے جانے ہم دنیا کو کونسا امن کا پیغام دے رہے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ کوئی حملہ ہو گیا جس میں جانوں کا زیاں ہوا تو کون پاکستان دوبارہ آئے گا؟ کیا ہم میں اتنا صبر نہیں کہ سال دو سال میں حالات بہتر کر کے انٹرنیشنل کرکٹ کو واپس لے آئیں۔ لیکن خیر صبر اور منطق کی بات اس قوم سے کی نہیں جا سکتی۔ میری دعا ہے کہ کوئی حادثہ نہ ہو لیکن اگر ہوا تو پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کو دس سال مزید پیچھے دھکیلنے کا ذمہ د ار کون ہو گا۔ اس کا تعین ابھی سے کر لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).