احتیاط کیجئے ورنہ پیار ہو جائے گا
اتوار سے شمالی سعودی عرب میں ملک کی تاریخ کی اہم ترین اور سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ ان مشقوں میں بیس اسلامی ملکوں کے فوجی دستے شامل ہیں۔ ان میں پاکستان اور ملیشیا جیسے دور دراز واقع ملک بھی حصہ لے رہے ہیں۔ شام کی انتہائی غیر یقینی اور کشیدہ صورت حال میں ان مشقوں کا انعقاد ماہرین کے نزدیک بعض درپردہ عزائم کی تکمیل کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں پاکستانی دستوں کا ان مشقوں میں حصہ لینا پاکستان کے قومی مفادات کے برعکس ہے۔ سعودی عرب سے دوستی اپنی جگہ اہم ہو سکتی ہے لیکن اپنے ملک کی حدود سے باہر سعودی حکومت کے جنگی عزائم اور ان پر عملدرآمد کے لئے اقدامات نہایت پریشان کن خبر ہے۔ پاکستان کو ان حالات میں سعودی عرب سے کسی قسم کے فوجی تعاون سے گریز کرنا چاہئے۔
یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ پاکستان کی سعودی عرب اور خطے میں اس کی پالیسیوں کے حوالے سے کیا افہام و تفہیم موجود ہے۔ پاکستانی حکام عام طور سے اس سوال پر جذباتی جواب دے کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں یہ سکہ بند جواب بھی شامل ہے کہ حرمین شریف کی حفاظت کے لئے پاکستان کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ یا سعودی عرب کی سالمیت پر حملہ ہو¿ا تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا۔ یہ بیانات سیاسی طور سے بھی گمراہ کن ہیں لیکن ان کی اسٹریٹیجک حیثیت بے حد مشکوک ہے۔ حیرت انگیز طور پر حکومت ایسے معاملات پر صرف فوج کے سربراہ سے رابطہ کرتی ہے اور قومی اسمبلی جیسے اہم فورم پر اس معاملہ پر بات سے گریز کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ سعودی عرب ، ترکی کے ساتھ ملک کر شام پر زمینی حملہ کرنے کی جو دھمکیاں دے رہا ہے ، وہ اس خطے میں حالات کو ڈرامائی طور سے تبدیل کرسکتی ہیں۔ روس نے اگر اس حملہ کو روکنے کے لئے باقاعدہ زمینی افواج شام بھیجنے کا فیصلہ کرلیا تو یہ ایک مشکل ، سنگین اور تباہ کن تصادم کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا۔ ان حالات میں دوست ملک کے طور پر پاکستان کو سعودی عرب کو بہتر سفارتکاری کا مشورہ دینا چاہئے اور کسی صورت میں اس کے جنگی عزائم کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔
گزشتہ برس کے شروع میں سعودی عرب نے یمن پر حملہ کرتے ہوئے پاکستان سے فوجی دستے طلب کئے تھے۔ فوج کے واضح مو¿قف اور قومی اسمبلی کی قرارداد کی روشنی میں حکومت کو اس قسم کا تعاون فراہم کرنے سے انکار کرنا پڑا تھا جس پر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک نے سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا۔ اسی طرح سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے چند ماہ قبل 35 ملکوں کا فوجی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان سے مشورہ کئے بغیر اس میں پاکستان کا نام شامل کرلیا گیا۔ حکومت اب تک اس اتحاد کے بارے میں واضح مو¿قف اختیار نہیں کرسکی۔ اسی طرح گزشتہ ماہ سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کیا تو پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف نے مل کر دونوں ملکوں میں صلح کروانے کے لئے ریاض اور تہران کا دورہ کیا۔ لیکن سعودی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو¿ا۔ بلکہ سعودی وزیر خارجہ نے ایسی ہر کوشش کی ضرورت کو مسترد کردیا تھا۔ یہ کہنا یا تصور کرنا غلط ہوگا کہ سعودی عرب پاکستان پر بھروسہ کرتا ہے۔ چند روز قبل تہران میں سعودی مفادات کے تحفظ کے لئے سوٹزرلینڈ کا انتخاب کیا گیا ہے حالانکہ پاکستان بھی یہ خدمات پیش کرچکا تھا۔
ان حالات میں پاکستان کو سعودی عرب کے معاملہ پر دوٹوک اور واضح پالیسی اختیار کرتے ہوئے ، قوم کو اس کے بارے میں اعتماد میں لینا چاہئے۔ مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات میں کوئی بھی غلط فیصلہ ملک کے لئے شدید مشکلات اور خطرات کا سبب بن سکتا ہے۔
- عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی سیاسی آرا - 28/03/2024
- عدلیہ کو زیادہ نقصان کون پہنچا رہا ہے؟ - 28/03/2024
- شہریوں کو فوجی عدالتوں کے حوالے نہ کیا جائے - 26/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).