ویلن ٹائن ڈے اور ہمارے بدیسی پارسا


\"wajahat\"ویلن ٹائن ڈے گزر گیا۔ اقبال نے کہا تھا ۔ لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب۔ اس موقع پر سامنے آنے والے مباحث 14 فروری کے دن اور 2016 ءکے سال تک محدود نہیں رہیں گے۔عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے…. اس دوران ایک آواز چوہدری نثار علی خان کی تھی اور ایک قرارداد کوہاٹ کی مقامی حکومت کی طرف سے آئی۔ ایک بیان جماعت اسلامی کراچی کے ترجمان سید عسکری نے دیا اور ایک فرمان صدر مملکت ممنون حسین نے جاری کیا۔ تاریخ بدلتی ہوئی تصویروں کا ایک متحرک سلسلہ ہے۔ کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا…. تو آئیے نواب زادہ فتح اللہ خان کو یاد کرتے ہیں جو جولائی 1948 ءمیں جھنگ کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے ایک سرکلر کے ذریعے حکم جاری کیا تھا کہ اگر کسی سرکاری اہلکار نے کچہری کی مسجد میں ڈپٹی کمشنر کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا نہ کی تو اسے ایک روپیہ جرمانہ کیا جائے گا۔ جولائی 48 ءمیں قائداعظم شدید علالت کے باعث زیارت تشریف لے جا چکے تھے اور اہل خبر جانتے تھے کہ اس آفتاب کے ممکنہ غروب کی صورت میں ریاست اور معاشرت کے بارے میں لیاقت علی خان کے موہوم موقف کو تقویت ملے گی۔ زیارت میں قائداعظم کا قیام لیاقت علی خان اور چوہدری محمد علی کی عیادت کے حاشیے سے مملو ہے ۔ یہ ملاقات خط مرموز میں لکھی ہماری تاریخ کاایک اہم باب ہے۔ ’انقلاب ‘میں عبدالمجید سالک نے ڈپٹی کمشنر فتح اللہ خان کی پارسائی پر پھبتیوں کا جھاڑ باندھ دیا تھا مگر سالک صاحب کے پاس محض قلم تھا اورریاست کے نیزہ بازوں نے اپنا خیمہ دریائے فرات کے کنارے گاڑ لیا تھا۔ لاہور نے تو ایس ایس پی سردار عبدالوکیل خان کا عہد بھی دیکھ رکھا ہے جو عریاں فلمی اشتہارات کے خلاف مہم چلایا کرتے تھے۔

مخدومی شہباز شریف نے پنجاب کی جامعات کے وائس چانسلر وں کی ایک کمیٹی قائم کی ہے جسے انتہا پسندی کے انسداد کے لیے فکری بیانیہ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ میر نے کہا تھا ….ایسا ہی اس کے گھر کو بھی آباد دیکھیو، جس خانماں خراب کا یہ دل مشیر ہو۔ ہماری تدریسی تاریخ میں تو ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور پروفیسر عمر حیات ملک بھی گزرے ہیں۔ ہر دو حضرات دستور ساز اسمبلی کے ارکان تھے اور محدود جمہوریت کے علمبردار۔ نواب زادہ شیر علی خان نے ظہور کیا تو پروفیسر سید عبداللہ میر اور غالب کو نصاب سے باہر کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ وائس چانسلر کا مقام بہت بلند ہے۔ امریکا کا صدر سبک دوش ہونے کے بعد سوائے تدریس کے کوئی پیشہ اختیار نہیں کر سکتا۔ لیکن قوم کا بیانیہ ایسے وائس چانسلر مرتب نہیں کیا کرتے جنہیں تقرری کا انٹرویو دینے کے لیے غلام گردش میں انتظار کروایا جائے اور جو اپنی ضخیم تالیف میں بیان کرتے ہیں کہ نائن الیون اور ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت مغرب کے جعلی ڈرامے تھے۔ جو یونیورسٹی کی طالبات کا فیشن تبدیل کرنے کو اپنی میعاد کا نصب العین قرار دیتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں تدریس کا ایک بیانیہ حمید احمد خان ، کرار حسین ، خواجہ منظور حسین اور ڈاکٹر نذیر احمدنے مرتب کیا اور ایک بیانیہ خیرات ابن رسا اوررفیق احمد خان کی روایت ہے۔ تعلیم اور قوم کے نصب العین میں گہرا تعلق ہے۔ قوم کا نصب العین علم دریاﺅ ہے۔ استاد کا حرف ادیب کے لفظ سے جا ملتا ہے اور صحافی کا جملہ مدبر کے بیان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سیاست دان کی بصیرت سے سائنس دان روشنی پاتا ہے اور سائنس دان کی تحقیق فنکار کی تخلیق کو راستہ دکھاتی ہے۔ قوم کا بیانیہ ایسی چیز نہیں جسے میز کے گرد بیٹھ کے سیکشن آفیسر مرتب کریں۔

ہمارے صدر مملکت ممنون حسین نے سردار عبدالرب نشتر کی یاد میں ہونے والی تقریب میں بہت سے لولوئے فکر ارزاں کیے۔ سوال ہی سوال چھوڑ دیے۔ صدر صاحب نے فرمایا کہ ویلنٹائن ڈے کا ہماری ثقافت سے کوئی تعلق نہیں۔ صاحب، سوال یہ ہے کہ ثقافت کہتے کسے ہیں۔ ثقافت محض عقیدے کے تابع نہیں ہوتی ۔ ثقافت کسی خطے کا ایسا نامیاتی تشخص ہے جو جغرافیائی محل وقوع، ارضیاتی حقائق ، تاریخی تجربے اور معیشت کے باہم تعامل سے خدوخال پاتا ہے۔ پارہ چنار کی موسیقی بہاولپور کی موسیقی سے مختلف کیوں ہے۔ گنگا جمنا کی وادی میں مسلم رہن سہن جاوا سماٹرا سے مختلف کیوں ہے۔ انگلستان کی مصوری آسٹریلیا کی مصوری سے مختلف کیوں ہے۔ فرانس کے تھیٹر اور اٹلی کے اسٹیج میں کیا فرق ہے۔ راولپنڈی کے بارانی علاقے اور کراچی کے ساحل پر مردوزن کے اختلاط کی صورتیں مختلف کیوں ہیں ۔ پشاور کی روٹی دبیز کیوں ہوتی ہے اور سانگھڑ کی چپاتی پر کاغذ کا گمان کیوں گزرتا ہے۔ ہم نے ثقافت کو پیوستہ مفادات کے تابع معاشرتی اقدار اور سیاسی جبر کا حکم نامہ قرار دے رکھا ہے۔ ثقافت کی منطق ناگزیر ہوتی ہے ۔ اسے سرکاری فرمان کے ذریعے تخلیق کیا جا سکتا ہے اور نہ مسلط کیا جا سکتا ہے۔

صدر محترم فرماتے ہیں کہ ہمارے طالب علموں کو مغرب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی چاہیے لیکن مغرب کا اثر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ دریا کے پار اترنے کی تجویز ہے اور تلقین کی ہے کہ کپڑے گیلے نہ ہوں۔ موہن داس کرم چند اور محمد علی جناح مغرب سے تعلیم پا کر آئے تھے تو مولوی ذکااللہ اور پنڈت جمنا داس سے مختلف ہو چکے تھے۔ ہم نے ایسی ہی درماندہ سوچ کے ہاتھوں درسی سند کو تعلیم سے جدا کر رکھا ہے۔سائنس کی سند رکھنے والا ہمارا طالب علم سائنسی فکر سے بے گانہ ہے اور وجہ یہ کہ چوہدری احسن اقبال ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اجلاس میں فرماتے ہیں کہ ’پاکستان جیسے ملک کو فلسفہ، تاریخ اور ادب کی کیا ضرورت ہے‘۔ ہاورڈ اور کیمبرج میں اقتصادیات کی تعلیم پانے والوں کو بھی فلسفہ پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن ہم نے تو فلسفی کا تصور اکبر الٰہ آبادی سے اخذ کیا ہے جو اسے فالتو عقل قرار دیتے تھے۔ جدید فکر یہ کہتی ہے کہ عوام اپنا بھلا بہتر سمجھتے ہیں۔ سو برس پہلے اس زمین پر عورتوں کی تعلیم کا سوال اٹھا تھا۔ آج اپنے اردگرد نظر ڈالئے اور بتائیے کہ قوم نے اکبر الٰہ آبادی، عبدالماجد دریا بادی اور ڈاکٹر اسرار احمد کا موقف تسلیم کیا یا مولوی ممتاز علی ،سجاد حیدر یلدرم ،شیخ عبداللہ علی گڑھ والے اور چوہدری محمد ردولوی کا بیانیہ تسلیم کیا؟۔

ہم پاکستان کے رہنے والے دیسی لوگ ہیں۔ ہمارا لبرل بھی دیسی ہے اور ہمارا مولوی بھی دیسی ہے۔ دیس سے تعلق کو طعنہ سمجھنا ان احباب کو مبارک ہو جو اپنی سوچ میں ایسے نچنت ہو رہے ہیں کہ ریاست کو اپنا آلہ کار بنانے میں عار نہیں سمجھتے ۔ سادہ سا اصول ہے کہ ریاست کی قوت نافذہ اپنی نوعیت میں منکرات کے تعین سے تعلق رکھتی ہے۔ قانون میں واضح طور پر بتا دیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں فعل کا ارتکاب جرم کی تعریف میں آتا ہے اور اس کے علاوہ زندگی کے تمام پہلو شہری کی صوابدید سے تعلق رکھتے ہیں۔ لباس کا انتخاب ، زبان کا اختیار کرنا ، اکل و شرب کی ترجیحات ، رسومات ، تہوار ، فلسفیانہ رجحانات اور رہن سہن کے دیگر مظاہر آزادی کے اس دائرے میں آتے ہیں جہاں ریاست کا منصب صرف شہریوں کا تحفظ کرنا ہے۔ جمہوریت اکثریت کا استبداد نہیں ہے اور اقلیت کو بھی یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ موہوم پارسائی کی قبا اوڑھ کر دوسروں پر محرومی کا کمبل ڈالیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف موثر بیانیہ پاکستان کے لوگوں کی حقیقی امنگوں کی پاسداری سے تشکیل پائے گا۔ یہ محض اصطلاحات کا گورکھ دھندا نہیں ہے۔ پاک چین اکنامک کاریڈور محض ایک سڑک نہیں ، ایک معاشرتی نمونے کا سنگ میل بھی ہے۔ اس معاشرتی نمونے میں علم ،رواداری اور امن کے رنگ ہوں گے۔ مشکل یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے صاحبان تدبر کے اپنے بچے تو مغرب میں شہریت اختیار کر چکے ہیں اور یہ اصحاب ہم پر حکمرانی کے تیور آزمانے کی غرض سے یہاں جلوہ افروز ہیں۔ اس بدنصیب زمین پر اپنی ارفع صلاحیت کے جوہر دکھانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے لوگ معتدل مزاج ہیں۔ جمہوریت ہمارے خمیر میں ہے۔ ہم ناانصافی کو بے حیائی سمجھتے ہیں۔ ہم نے حسن ناصر اور راشد رحمن کا خون دیا۔ ہم آمریت کی حمایت کو بے شرمی قرار دیتے ہیں۔ ہم نے زندانوں کی رونق بڑھائی اور گڑھی خدا بخش بھٹو کا قبرستان آباد کیا۔ ہم ٹیکس چوری کرنے کو بے غیرتی سمجھتے ہیں۔ہم ماچس کی ڈبیا بھی خریدتے ہیں تو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ شرم ، حیا اور غیرت کے سبق دینے والے بھی قوم کے سامنے اپنی فرد عمل پیش کریں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments