نرگس ماول والا ، ماہ کنعاں اور ہماری خوشی


\"ramish\"یہ پڑھنے سے پہلے آپ ’ہم سب‘ پر سید مجاہد علی کا کالم پڑھیں جس میں نرگس ماول والا کی کامیابیوں کے راستے کا تذکرہ ہے۔

کام کی بات وہاں ہے یہاں تو صرف خوشی اور سرشاری ہے کہ ہزاروں سال اپنی  بے نوری پہ رو نے والی نرگس اب نور پھیلا رہی ہے۔ ماہ کنعاں کی خبر لائی ہے ۔

نرگس ماول والا کی کامیابی کا راستہ جن گلیوں اور چوباروں سے ہو کر گزرتا ہے وہاں تک تو ہم پہنچے ہی نہیں ، ابھی تو ہم بیچ چوراہے میں کھڑے ہیں، کاٹھ کی ہنڈیا چڑھا رکھی ہے اور کلھیا میں گڑ پھوڑ رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جس گھرانے میں وہ پیدا ہوئیں وہاں یہ تفریق نہیں کی گئی کہ عورت کیا کام کر سکتی ہے اور کیا نہیں۔ یہ بھی بھلا بات ہے کوئی، ابھی تو ہم کل ہی بیچ چوراہے سب کی بہنوں کی عزت اچھال رہے تھے اور یہ خاتون نئی بات لے کر سامنے آ گئیں، ابھی تو اہلِ وطن نے جشن منانا شروع کیا تھا کہ دیکھو نرگس پاکستانی ہے لیکن یہ خاتون تو پارسی گھرانے کی نکلی۔

خاتون نے مزید فرمایا میرے والدین میرے اسبجیکٹ کو سمجھتے نہیں تھے مگر انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ کیا آپ ایسے ہی بات سمجھے بغیر ساتھ دے سکتے ہیں اس بچی کا جو دروازے پہ کھڑی کالج جانے کی اجازت چاہتی ہے اور آپ نے اس کا رشتہ اپنے بھائی کے بیٹے سے طے کر دیا ہے؟ وہ کالج جانا چاہتی ہے اور ہم اسے رشتے مضبوط کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں تعلیم کے خواب ہیں اور آپ اسے اس کا خواب جینے کی اجازت نہیں دیتے، ابھی تو یہی تکلیف بہت ہے کہ اسے پڑھنے دیا جائے۔ اس بات پہ آپ سے کیا گلہ کریں کہ جو بھی مضامین پڑھنا چاہتی ہے۔ پڑھنے دیں۔

نرگس ماول والا نے اتنی ہی بات کی ہوتی تو ہم مان لیتے کہ چلو مظلومیت کا جھوٹا رونا رونے والوں کی ہڈی میں چین آیا ہو گا ہماری طرح لیکن پھر جن کی دم پہ انہوں نے پیر رکھا اس کے بعد تو ہمارا بے اختیار دل چاہا کہ اڑتے ہوئے لیگو پہنچتے اور خاتون کا ماتھا چوم لیتے، کہتی ہیں کہ میں ہمیشہ سے یہ جاننے میں دلچسپی رکھتی تھی کہ یہ کائنات کیسے معرضِ وجود میں آئی مگر میں مذہبی توجیہات کے بجائے خود اس بات کا سراغ لگانا چاہتی تھی۔ مجھے یاد آ گئے وہ سب مہربان جو کہتے ہیں یہ سب لکھا ہوا ہے ہماری کتابوں میں۔بس یہی سوچ کا فرق ہے جو ہم یہاں اور نرگس ماول والا کلفٹن سے لیگو پہنچ گئیں۔

ہم ہر بات کے لیے ماضی میں جائیں تو راوی راوی کرتے مر جاتے ہیں ، وہ جاتے ہیں تو ہر بات پہ کہتے ہیں کہ تو کیا ہے، کیا کہہ رہا ہے کیوں کہہ رہا ہے۔ چلو آزما کے دیکھتے ہیں جو کہہ رہا ہے سچ بھی ہے یا ایسے ہی رنگ بازی لگائے رکھی ہے۔

ہم انتظار کرتے ہیں کہ وہ کچھ دریافت کریں، پھر صحیفے کھولتے ہیں اور دھمالیں ڈالتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں کہ یہ ہماری کتاب میں پہلے ہی لکھا ہے۔….

بہرحال نرگس ہو، نرگس فخری ہوں یا نرگس ماول والا، اس قوم کی نرگسیت دور کرنے کا اچھا سامان موجود ہے اگر ہم خریدنا چاہیں۔لیکن ہم تو وہ لوگ ہیں جو نرگس فخری کی تصویر دیکھ کر دیوانے ہو گئے تھے۔ اگر ہم پڑھ سکتے اور پھرنرگس ماول والا کی کامیابیوں کا راستہ دیکھتے تو دیوانگی جنون سے پرے نکل جاتی کہ خاتون فرماتی ہیں ’عورت ہو، اقلیت ہو یا ہم جنس پرست، کامیابی کا اس سب سے کوئی تعلق نہیں‘۔

یہاں تو خاتون لکھ رہی ہیں تو لوگ تعریفی جملہ بولتے ہیں عورت ہونے کے باوجود خوب لکھا یا پھر جن کو کچھ نہ ملے وہ شروع ہو جاتے ہیں کہ لکھوایا ہو گا کسی سے،جیسے اچھا لکھنے پہ تو کاپی رائٹ ہے مردوں کا۔باقی رہی بات اقلیت کی تو اقلیت کو تو ہم گھاس تک نہ ڈالیں کیونکہ گھاس چرنے تو ہماری اپنی عقل گئی ہے۔

آئن سٹائن کی کامیاب سازش سے زیادہ تو ہمیں نرگس ماول والا کی خوشی ہے ، پاکستانی ہیں مگر ان مسائلِ تصوف سے آگے نکل گئیں جن پہ ہم پریشان بیٹھے ایک دوسرے کو تک رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments