غلاموں کی بغاوت


\"raziہمارے ساتھ ہوا تو یہی کہ انتہا پسندوں کو ترقی پسندی کے چولے پہنا کر ہماری صفوں میں بھیج دیا گیا اور ہم اسی کو اپنی کامیابی سمجھتے رہے۔ جماعتِ اسلامی والوں نے جب مشرف کے خلاف نام نہاد عدلیہ تحریک کے دوران فیض صاحب کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ لہک لہک کر کورس کی صورت میں گانا شروع کی تو ہمارا ماتھا اسی وقت ٹھنکا۔ لیکن ہمارے ترقی پسند دوست اس پر بغلیں بجاتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر جماعتیوں نے فیض صاحب کا ترانہ قبول کر لیا ہے تو یہی ہماری کامیابی ہے۔ ہم نے بہتیرا سمجھایا کہ بھائیو یہ ہماری کامیابی نہیں ہے یہ سب کسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے اور یہ لوگ فیض صاحب کی فکر کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں تو خود عدلیہ کی تحریک پر بھی شکوک وشبہات تھے۔ بھلا کوئی ذات کاجج سرکشی پر کیسے اترسکتا ہے۔ ہم نے اپنے دوستوں کوسمجھایا کہ حضور منصف اعلیٰ کی یہ نام نہاد سرکشی بھی طے شدہ سرکسی منصوبے کا حصہ ہے۔ ان کی ڈوریاں بھی وہیں سے ہلائی جا رہی ہیں جنہوں نے جماعتیوں کو لیفٹ رائٹ کی دھن پر’ نعرہ تکبیر، اللہ اکبر‘ لگانے سے روک دیا ہے اور اس کی جگہ فیض صاحب کا ترانہ تھما دیا ہے۔ لیکن ہمارے دوست تنکے کا سہارا ڈھونڈ رہے تھے اور ماتحت کی سرکشی کو انقلاب کا پیش خیمہ قرار دے رہے تھے۔ بعد کے دنوں میں ثابت وہی ہوا جو نظرآ رہا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ کچھ مولویوں کو روشن خیال قرار دے کر چینلوں پر بٹھا دیا گیا۔ کام ان کا بھی وہی تھا کہ عوام الناس کی ذہنی آلودگی میں اضافہ کیا جائے بس طریقہ کار ذرا مختلف تھا۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ترقی پسندوں کو برا بھلا کہنے والے ترقی پسند کانفرنسوں میں مسند نشین ہو گئے۔ ہمارے دوستوں نے اسے بھی قبولیت کا مرحلہ قرار دیا اور فرمایا ، کہ ہمارے دشمنوں کی تعداد کم ہورہی ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ دشمن ہمارے صفوں میں جوق درجوق شامل ہورہے تھے اور انتہا پسندی، رجعت پسندی، روشن خیالی، ترقی پسند ی کی تمیز طے شدہ منصوبے کے تحت ختم کی جارہی تھی۔ اسی دوران طرفہ تماشا یہ ہوا کہ درباریوں نے ہی دربار میں بیٹھ کر مزاحمت کرنے والوں کو درباری کہنا شروع کردیا۔ وہ جو مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھا چکے تھے اور ٹی وی پر بیٹھ کر اس کی ایمرجنسی کو جواز فراہم کرتے رہے تھے انہوں نے لوگوں کے حافظے کو کمزورجانا اور جمہوریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گئے۔

سرکاری ملازموں کا مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ خوشامد ان کے رگ وپے میں گردش کرتی ہے۔ وہ عمر بھر کسی نہ کسی بہانے ترقی حاصل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں اور اس کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ مشرف سے وردی اتارنے کا مطالبہ کرنے والے آج تک خود بھی وردی میں ہی ملبوس ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی عہدے کی تلاش میں ہیں۔ کسی سرکاری ادارے کی سربراہی، کسی ادارے کے بورڈ آف گورنرز میں شمولیت، سرکار کے خرچ پر اندرون و بیرون ملک کانفرنسوں میں شرکت، یہی ان کی معراج ہے اور یہی ان کی نوکری (ماتحتی) کاحاصل ہے۔ عمر بھر کی خوشامد کایہ صلہ حاصل کرنے کے باوجود وہ خود کوانقلابی بھی سمجھتے ہیں ، اصول پسند بھی اور جمہوریت پسند بھی۔ کسی کے حکم پر فیصلے تحریر کرنے والوں کو کیا معلوم کہ دانش کیا ہوتی ہے ؟اورعمر بھر چپ کی نوکری کرنے والے کیا جانیں کہ آزادی اظہار کس چڑیا کا نام ہے؟ انہوں نے تو لفظ سرکش کوبھی سرکس میں تبدیل کر دیا ہے۔ اہل حکم کی آ ﺅ بھگت کو بغاوت سمجھتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments