پنجابی اور پختون کے مابین نسلی عصبیت کا تنازعہ


(ایچ ایم کالامی )

آپریشن ضرب عضب پر ریاستی اداروں کے اطمینان کے باوجود ایک بار پھر نادیدہ قوتوں نےجس طرح کراچی سے پشاور اور چارسدہ میں نہتے شہریوں کو خون میں نہلادیا، اس سے ریاستی اداروں میں تشویش بڑھنے کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی، جس کا قومی یک نکاتی رد عمل ’’آپریشن ردالفساد‘‘ کی صورت میں شروع ہوا تو عوام بھی حکومتی اداروں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی، اور تمام ادارے ایک صفح پر آگئے۔

ایسی صورت حال میں نجانے پھر سے کن نادیدہ قوتوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے اور آپریشن’’ردالفساد‘‘ کے خلاف ’’رد الاتحاد‘‘ کی ناکام کوشش جاری ہے۔

پنجابی اور پختون کے مابین نسلی عصبیت کا تنازعہ کھڑا ہوگیا یا ’’کردیا گیا‘‘۔ صورت حال اس وقت خطر ناک موڑ اختیار کرگئی جب منڈی بہا الدین پولیس کی جانب سے ’’مبینہ طور پر‘‘ جاری شدہ سرکلر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا، جس میں اطلاع دی گئی تھی کہ پٹھان یا افغان حلیہ رکھنے والےجو پشاوری قہوہ، خشک میوہ جات اور گھریلوں استعمال کی اشیاء فروخت کرتے ہیں جہاں بھی دکھائی دیں تو پولیس کو مطلع کیا جائے۔ اس کے بعد جہاں پختون سمیت ہر محب وطن شہری نسلی تعصب کی بو سونگنے لگے وہیں قوم پرست سیاسی حلقوں کا بھی پارہ چڑھتا گیا۔ اور عوامی نیشنل پارٹی کے سنیٹر شاہی سید نے سینٹ میں تحریک التوا جمع کرادی، دوسری طرف صوبائی اسمبلی کے فلور پر بھی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے آوازیں گونجنے لگے۔

پھر ہمارے ریاستی اداروں کو بھی صورت حال کی نزاکت کا اندازہ ہوا اور معاملے کو رفع دفع کرنے اور تشویش کی لہر کو ختم کرنے کے لئے عوامی حلقوں کو اعتماد میں لے لیا گیا کہ جو سرکلرجاری ہوا ہے، یہ جعلی ہے اس میں نہ متعقلہ پولیس آفسر کا دستخط اور مہر تصدیق ثبت ہے اور نہ تحریر کی تاریخ۔ اس لئے یہ ایک مذموم سازش ہے جس پر کان نہ دھرا جائے۔ ساتھ ساتھ بعض لوگوں نے براہ راست چند قوم پرست جماعتوں کو ملک میں انتشار پھیلانے میں مورد الزام ٹھہرا کرخوب آڑے ہاتھوں لیا۔ مگر پنجاب حکومت نے مسلسل خاموشی پر اکتفا کیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب پارلیمان سب سے بالاتر ہے تو معاملے کو فوری طور پر پارلیمنٹ میں زیر بحث لانا چاہیے تھا مگر نہ پنجاب حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس موقف سامنے آیا اور نہ اراکین پارلیمنٹ نے معاملے کو سنجیدہ لیا۔

بہر حال سیکیورٹی اداروں کی حکمت عملی سے تھوڑا بہت افاقہ ہوگیا تھا کہ اگلے دن موقر قومی روزنامے میں خبر شائع ہوگئی اور سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوگئی کہ منڈی بہا الدین کے آرپی او عبدالروف کو پنجاب حکومت کی جانب سے احکامات جاری کرکے مجبور کردیا گیا تھا کہ سرکلر جاری کیا جائے۔ مگر پھر بھی نہ پارلیمنٹ سے کوئی خبر آئی اور نہ پنجاب حکومت نے لب کشائی کی۔
پھر کچھ عوامی حلقوں نے بھی معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے نسلی و لسانی تعصب کا احساس ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی اور ایسی صورت حال میں نادیدہ قوتوں کی حوصلہ شکنی کے لئے بھرپور کردار ادا کررے تھے کہ سوشل میڈیاپر پھر سے کھلبلی مچھ گئی وڈیوکلپس اور تصاویر گردش کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے حکم نامے نے جلتی پر تیل چھڑکا جس میں لاہور میں ایک مارکیٹ کی تاجر ایوسی ایشن نے ہدایت جاری کی تھی کہ مارکیٹ میں برسر روزگار پٹھانوں کی کوائف جمع کرادیں۔ یہاں پر یہ بھی طریقہ اپنایا جاسکتا تھا کہ پوری مارکیٹ برادری کو کوائف جمع کرانے کا حکم صادر کیا جاتا، تاکہ مخصوص طبقہ احساس کمتری کا شکار بھی نہ ہو اور نہ سیخ جلے نہ کباب۔

ساتھ ساتھ ہمارے میڈیا نے بھی منافرت کو ہوا دینے میں بھرپور حصہ ڈالا۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ اظہار آزادی رائے کے نام پر ذرائع ابلاغ کا ایک طوفان پرپا ہوچکا ہے اور ایک دوسرے سے سبقت لینے اور راتوں رات کمائی کی خاطر ابلاغیات کے اصولوں کو پاؤں تلے روند کر جس طرح ملکی سالمیت کو نقصان پہنچایا جارہا ہے شاید ہی کسی جمہوری ملک میں اس کی مثال ہو۔ مگر ہمارے ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پروپیگنڈا بھی میڈیا کا ایک حصہ ہے جس کو چلتے رہنا چاہیے، مگر میڈیا پروپیگنڈا خراب ہونے والی صورت حال کو قابو میں لانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور منفی تاثر کو مثبت پر حاوی کرنےکے کام آتا ہے مگر جس طرح ہمارا میڈیا منفی تاثر پھیلارہا ہے، کسی اور کو زحمت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
اور اب تو قوم پرست سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعیتں بھی آگ بگولہ ہورہی ہے۔ جس میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف بھی شامل ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جو ایک بڑی قومی حمایت رکھتے ہیں انہوں نے بھی ٹویٹ کیا ہے کہ پنجاب میں پختونوں کی ریشئیل پروفائلنگ ہورہی ہے اور شدید الفاظ میں اس کی مذمت بھی کی ہے۔ ان کی جماعت کے ممبر قومی اسمبلی مراد سعید جو سوات سے تعلق رکھتے ہیں، نے بھی سوشل میڈیا پر پیغام میں کہا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کے کہنے پر یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ اور بھی بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ خبر گردش کررہی ہے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت پنجاب حکومت سے جواب طلب کرنا چاہتی ہے جس کے لئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے وزیر اعلی کو حکم جاری کیا ہوا ہے۔

عرض کرتا چلوں کہ ایک جمہوری ملک میں سیاسی جماعتوں کا آپس میں نسلی اور لسانی تعصب کی بنیاد پر اختلاف کا سر اٹھانا ملکی سالمیت کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اور پھر وہ بھی وطن عزیز جیسے ملک میں جس پر دشمنوں کی میلی آنکھ ہر طرف سے جمی ہوئی ہے۔ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

اب تمام تر ذمہ داری ہماری سیاسی جماعتوں کی کندھے پر ہے۔ اور بالخصوص پنجاب حکومت کی جانب سے اپنا کھلا موقف سامنے لانا چاہیے کہ اصل ماجرا کیا ہے؟ کیا واقعی ان کے احکامات پر یہ سب کچھ ہورہا ہے؟ اگر ہاں تو کوئی قانونی جواز سامنے رکھا جائے۔ اگر نہیں تو سیکیورٹی اداروں کو ان تمام نادیدہ قوتوں سے نبرد آزما ہونا چاہیے جو ملک میں نسلی و لسانی تعصب پھیلا کر وطن عزیز میں حالات کو مزید بگاڑنے کے درپے ہیں۔

ایسے تمام عناصر کے خلاف بلاامیتاز قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ جو پرنٹ میڈیا کی صورت میں ہو، الیکٹرانک میڈیا کی صورت میں ہو یا انٹرنیٹ کے ذریعے ہو یا سیاسی صورت میں ہو یا پھر کسی اور مخصوص گرہ کی شکل میں۔

اس مسئلے کے پیچھے کارفرما عناصر کی ٹھیک طرح سے تحقیق ہونی چاہیے اور اس باب کو بند کرکے ملکی حالات پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ ورنہ بعد میں کفِ افسوس ملنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
آخر میں ایک شعرعرض کرنا چاہوں گا کہ

میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے ڈر یہ آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).