عمران خان سیاست میں منفی باؤلنگ کے بادشاہ ہیں


  لاہور میں چیرنگ کراس والے واقعے پر لکھتے ہوئے ہم نے کہا تھا:

’’انھوں نے یہ دھماکا اس لیے پہلے کیا ہوگا کہ انھیں ہڑتالیوں کی وجہ سے بہت آسانی سے موقع مل گیا ، کیونکہ پی ایس ایل کے میچ میں انھیں اس قدر آسانی سے اس کا موقع نہیں مل سکتا تھا، اس لیے انھوں نے سوچا کہ اگر کچھ دن پہلے دھماکا کر کے یہ مقصد حاصل ہورہا ہے تو اس موقع کو ہاتھ سے کیوں جانے دیا جائے ۔

’’اس بات کا بھی امکان ہے ، وہ اگلا وار بھی جلد کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ پاکستان کی انٹر نیشنل کرکٹ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک سکیں ۔ یوں وہ پاکستان کو تنہا کرنے اور بدنام کرنے کے مقصد کو انتہائی آئیڈیل سطح پر حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ( ہمارے خدشے کے عین مطابق لاہور میں ڈیفنس کے علاقے میں ایک نا خوشگوار حادثہ رونما ہو گیا، جس کا دہشت گردی ہونا ثابت نہیں ہوا لیکن اس سے خوف و ہراس کی فضا ضرور پیدا ہوئی ۔) لہٰذااس موقع پر وفاقی حکومت ، صوبائی حکومت اور سیکورٹی اداروں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ لاہور میں متوقع پی ایس ایل کے فائنل کے کامیاب انعقاد کو یقینی بنائیں اور دہشت گردوں کے منہ پر ناکامی کا طاقتور تھپڑ رسید کریں ۔‘‘

جب وفاقی حکومت، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور صوبائی حکومت نے متفقہ طور پر پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کا اعلان کر دیا تو سوائے عمران خان کے تمام سیاستدانوں نے اس عزم کو سراہا اور عوام نے اس کی بھرپور طریقے سے حمایت یوں کی ہے کہ اس میچ کی ٹکٹیں چند گھنٹوں ہی میں فروخت ہو گئیں ۔ لوگوں کو اس بات پر شدید حیرت ہوئی ہے کہ عمران خاں نے اتنے سخت لفظوں میں اس جرأت مندانہ فیصلے کی مخالفت کیوں کی ہے ؟

مجھے ترس تو ان لاکھوں پاکستانیوں پر آتا ہے جو عمران خان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ان سے انتہائی اعلیٰ امیدیں قائم کیے ہوئے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ جو شخص اتنا بزدل ہو کہ پنی ’انا ‘(Ego)یعنی خود ہی سے ہار جائے، جو ملکی اور قومی مفاد سے اٹھ کر سوچنے کی ہمت سے محروم ہے، وہ مسائل سے گھرے اس ملک کے لیے کیا کر سکے گا ؟ کاش عمران خاں اپنے اکیس فروری ہی کے بیان ہی کو یاد رکھ سکتے لیکن وہ تو حکومت سے نفرت کی آگ میں اس قدر آگے بڑھ گئے ، کہ ایسا بیان دے دیا جس کا دفاع ان کی پارٹی کے اہم عہدے داروں کے لیے بھی ممکن نہیں رہا ۔ اب تو خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ جو غیر ملکی کرکٹر پاکستان نہیں آرہے ،ان کو بھی عمران خاں ہی نے ڈرایا ہے کہ وہ پاکستان آنے کی حماقت نہ کریں ۔ یہ خبر غلط بھی ہو سکتی ہے لیکن خان صاحب نے جب یہ کہہ دیا کہ خطرہ ہے اور بہت بڑا رسک بھی تو دوسرے لفظوں میں انہوں نے ان کھلاڑیوں ہی کو نہیں سارے پاکستانیوں ہی کو قذافی سٹیڈیم میں آنے سے روک دیا ۔ کاش انھیں ان پاکستانیوں کی بھی فکر ہوتی جن کو وہ اپنے دھرنوں کے ناکام ایڈونچرز میں استعمال کر چکے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت انھیں کن نادیدہ قوتوں نے یہ یقین دلایا تھا کہ ان کے احتجاج میں شرکت کرنے والوں کی جانیں سلامت رہیں گی اور یہ ایڈونچر رسک فری ہو گا ؟اور اگر ایسی کوئی بات نہیں تھی تو اس وقت انھوں نے یہ رسک کیوں لیا تھا ؟ اگر اس میں ملکی مفاد تھا تو اس وقت حکومت اور فوجی قیادت کے پیش نظر کیا ہے ؟

وہ یہ تو بھی کہہ سکتے تھے کہ مجھے اس فیصلے سے اختلاف ہے لیکن اب سب نے یہ فیصلہ کر لیا ہے اس لیے میں اس کے کا میاب انعقاد کے لیے دعا گو ہوں ۔ کاش وہ اپنے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ہی جتنی سیاسی سوجھ کا مظاہرہ کر دیتے جنھوں نے فوراً یہ بیان دے دیا کہ ان کو فرصت ہوتی تو وہ لاہور ضرور جاتے ۔

دراصل پی ایس ایل کا فائنل محض کھیل نہیں، یہ پر امن اور محفوظ پاکستان کا استعارہ بن کر سامنے آنے والا ہے ، یہ بزدل ، جاہل ، متعصب اور گمراہ ٹولے کے ارادوں کو ناکام بنانے کے عزم کااظہار بن گیا ہے ۔ یہ اپنی مرضی سے جینے کے ارادے کی جیت کا نشان بننے والا ہے۔ ( واضح رہے کہ طالبان اور تنگ نظر مذہبی طبقہ کھیل سمیت تمام فنون لطیفہ کو پیشہ بنانا حرام سمجھتا ہے ۔ ان کے نزدیک یہ ساری چیزیں ’لہو لعب ‘ یعنی شیطانی اشغال ہیں ۔اسی لیے وہ اس طرح کے سلسلوں کو بزور قوت بند کرنا چاہتے ہیں لیکن اس قدر اندھے اور کند ذہن ہیں کہ نہیں دیکھتے کہ ایسا کرنے سے وہ پاکستان دشمنوں کا ایجنڈا مضبوط کریں گے۔ ان کی عقل اس جاہل خدمت گزار جتنی ہی ہے جس کو کہا گیا تھا کہ مالک سو رہا ہے ، اس لیے اس کے آرام میں خلل نہ ہونے پائے ، مگر ایک مچھر کو مالک کے سر پر بیٹھا دیکھ کر اس نے اسے مارنے کے لیے ڈنڈ امالک کے سر پر دے مارا ، اس سے مچھر تو اڑ گیا لیکن مالک بیچارا ہمیشہ کا آرام کرنے قبر میں جا لیٹا۔ ) یہ سٹیٹ کی رٹ کو بحال کرنے کی علامت بن گیا ہے ، یہ بین الاقوامی سطح پر ملک کے وقار کی علامت بن کر سامنے آرہا ہے ۔ اس لیے پی ایس ایل کے فائنل کی کامیابی کے لیے ہم دعاگو ہیں ، اس کے لے ہم جذباتی بھی ہیں اور اس کی شدید خواہش رکھتے ہیں کہ دہشت گردوں کو زور دار تھپڑ مارنے کی یہ کوشش کامیابی سے ہمکنار ہو ۔ یہ صرف تھپڑ اس لیے ہے کہ اس میں کامیابی محض ایک قدم کا حصول ہے نہ کہ منزل مراد!

اس موقع پر کچھ اہم باتوں کی طرف توجہ ضرور دلا دیں کہ دہشت گرد اگر یہاں نہیں تو دوسری جگہوں کو نشانہ بنانے کی کوشش ضرور کریں گے، لہٰذا جس طرح عاشورے کے دنوں میں پورے ملک کی سیکورٹی کو محفوظ بنانے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے ، اسی طرح اس موقع پر بھی پورے ملک کو سامنے رکھا جائے ۔( عاشورے کی مثال کی معنوی گہرائی اور بلاغت ذہن میں رہے ) یہ نہ ہو کہ دشمن کسی دوسری جگہ وار کر جائے اور ہم احمقوں کی طرح زخم چاٹتے رہ جائیں ۔ دوسرے یہ کہ سیکورٹی کے نام پر شہریوں کی زندگیوں کو ہر گز اجیرن نہ بنایا جائے ۔ بے شک نقل و حرکت محدود کی جائے لیکن جنگی کیفیت پیدا کرنے سے ممکن حد تک پر ہیز کیا جائے ۔ بلا شبہ یہ ایک جنگ ہے لیکن اسے ہم کھیل کے میدان میں لڑ رہے ہیں، اسی لیے اس میں کھیل کے ماحول کو بر قرار رہنا چاہیے !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).