مستنصر حسین تارڑ کو 78واں یوم پیدائش مبارک


جتنے بھی حسین منظر مستنصر حسین کی خوبصورت آنکھوں کے رستے ان کے زرخیز دماغ تک پہنچے اور صفحات پر منتقل ہوئے وہ زندہ جاوید ہوگئے۔

میں نے اِس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کہ کہا، رسول! میرے اندر منظروں کی ہوس ختم نہیں ہوتی، چشمے خشک نہیں ہوتے، برف زاروں کی یخ بستگی میرے بدن کو سرد نہیں کر سکی، ہر صُبح میری انگلیوں سے ان پانیوں کی مہک آتی ہے جنہیں مدتوں پہلے میں نے چھوا تھا۔ یہ ہوس کب ختم ہوگی؟

کبھی نہیں ۔۔۔۔۔ اس نے میری ہتھیلی کی پشت کو سہلایا۔ یہی ہوس تمہیں لکھنے پر مجبور کرتی ہے، تمہیں ایسی قوت دیتی ہے جو دوسروں کے پاس نہیں اور میں تمہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ تم ایک خوش نصیب شخص ہو۔

وہ میں ہوں، لیکن۔۔۔۔۔ اِس نے میرے رخسار کو تھپکا، تم سے بھی زیادہ نصیب والے وہ منظر ہیں جن کے حصے میں تم آئے ہو، تم جس چشمے پر جُھکے، جس آبشار کی پھوار سے گزرے، جس جھیل کے پانیوں میں اُنگلیاں ڈبوئیں وہ تم سے زیادہ خوش نصیب ہیں۔

یہ وہ الفاظ تھے جو رسول حمزہ نے مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں کہے، جن کا تذکرہ مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ’یاک سرائے‘ میں ملتا ہے۔ واقعی جتنے بھی حسین منظر مستنصر حسین کی خوبصورت آنکھوں کے رستے ان کے زرخیز دماغ تک پہنچے اور صفحات پر منتقل ہوئے وہ زندہ جاوید ہوگئے، ان منظروں کی قسمت بدل گئی۔

یکم مارچ 1939 کو منڈی بہاؤالدین میں پیدا ہونے والے مستنصر حسین تارڑ نے بطور اداکار، مصنف، اینکر، کالم نگار ایک مقام بنایا۔ 50 سے زائد کتابوں کے مصنف ٹہرے۔ ان کے ناول، سفرناموں کی مقبولیت کسی صورت کم نہیں ہوئی۔ مستنصر حسین تارڑ کے ناول کہانی اور تاریخ کا حسین امتزاج رکھتے ہیں۔ مستنصر حسین نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا کمال کردیا، میں ذاتی طور پر اِن کے سفر ناموں سے زیادہ ناولوں کا مداح ہوں، کیونکہ بقول مستنصر حسین تارڑ،

’’ناول قوموں کی زندگی کا ریکارڈ ہوتا ہے‘‘

(خس و خاشاک زمانے)

مستنصر حسین تارڑ کا صرف ایک ہی ناول ’’بہاؤ‘‘ ان کی حیات دوام کے لئے کافی ہے، جس کے بارے میں بانو آپا کہتی تھیں

’’مستنصر، یہ تمہارا سب سے خوبصورت ناول ہے، اس کے بعد تم کوئی ناول نہیں لکھنا‘‘۔

مستنصر کے قلم سے نکلے افسانے ہوں یا ڈرامے، ناول ہوں یا سفرنامے ان کا دیوانہ ایک زمانہ ہے، مستنصر حسین تارڑ کی ہر کتاب میں کوئی نہ کوئی شے ایسی ضرور ہوتی ہے جو انہیں باقی لکھاریوں سے جدا کرتے ہوئے قاری پر اپنا ہمیشہ رہ جانے والا اثر چھوڑ جاتی ہے۔

1969 میں 19 ممالک کے سفر سے شروع ہونے والی پہلی مُہم جوئی کی داستان ’نکلے تیری تلاش میں‘ سے حسین منظروں کی ہوس سے شروع ہونے والا سلسلہ نیلی آنکھوں والی پاسکل کے ’پیار کا پہلا شہر‘ تک چلا جاتا ہے۔

کبھی ’یاک سرائے‘ میں موت ایک مستقل کردار کی صورت نظر آتی ہے۔ مستنصر حسین قاری کی اُنگلی پکڑ کر ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور کتاب کے اختتام پر وہ تو آگے بڑھ جاتے ہیں مگر قاری کہیں کا نہیں رہتا، وہیں گُم سُم کھڑا رہتا ہے، اسی در کا ہو جاتا ہے۔

کہیں مستنصر حسین قاری کو افغانستان کے طالبان دور کی ’قلعہ جنگی‘ تک لے جاتے ہیں تو کبھی سویت یونین جنگ کی ہولناکیوں سے سہمی ’فاختہ‘ سے ہمارا سامنا کرواتے ہیں۔ کبھی قاری کو موہن جو دڑو کی تاریخ کے دھارے کے ’بہاؤ‘ پر چھوڑ دیتے ہیں تو کبھی انگلی پکڑ کے اسپین کے شہر ’اندلس میں اجنبی‘ بن کر اپنے تابناک ماضی کی تلاش میں لئے پھرتے ہیں۔ کبھی سوئٹرزلینڈ کی ’جپسی‘ کہیں سے وارد ہوتی ہے تو مستنصر قاری کو ساتھ لئے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ چلتے چلتے ’نیپال نگری‘ پہنچ کر دم لیتے ہیں۔ پہاڑوں کے دیس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ چین کی ’پتلی پیکنگ‘ ہو، ’ماسکو کی سفید راتیں‘ ہوں یا پھر ’الاسکا ہائی وے‘ ہر منظر مستنصر حسین تارڑ کے قلم کی نوک سے اور بھی سنور جاتا ہے۔ ’منہ ول کعبے شریف‘ ہو یا ’غار حرا کی ایک رات‘ کا مشاہدہ۔ مستنصر حسین تارڑ اپنے قاری کو کبھی مایوس نہیں کرتے۔

تارڑ صاحب جن کا اُوڑھنا بِچھونا ہی ادب ہے، جس کی ہر تصنیف میں محبت ہے، جس کا ہر لفظ، ہر سطر، ہر صفحہ، ہر باب، ہر کتاب، ہر مجموعہ انمول ہے۔ ادب کی اِس عظیم ہستی کو ادب کے اس شاگرد کی جانب سے جنم دن مبارک۔

اس دُعا کے ساتھ کہ مستنصر حسین تارڑ ہمارے بنجر ذہنوں کو ایسے ہی سیراب کرتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).