میرے تم


دل وہ ضدی بچہ ہے جو دنیا جہاں کے تمام کھلونے پاس ہوتے ہوئے بھی اس کھلونے کو حاصل کرنے کی ضد کر بیٹھتا ہے جو دسترس میں نہ ہو۔ اس ضد میں ان تمام کھلونوں کو بھی توڑ ڈالتا ہے جو پاس موجود ہوتے ہیں۔تشفی پھر بھی نہیں ہونے پاتی الٹا الجھن بڑھ جاتی ہے۔دل بچہ ہے لیکن اس کے اردگرد موجود لوگ اسے بچہ سمجھنے پہ رضا مند نہیں ہوتے۔ اپنے ساتھ برتی گئی بے اعتنائی پہ سیخ پا ہوتے ہیں، فاصلے پیدا کر لیتے ہیں، راستے بدل جاتے ہیں۔کسے فرصت کہ پوچھے اتنا غصہ کیوں، خوامخوہ کی بے زاری کی وجہ کیا ہے؟ پوچھیں بھی تو کیوں؟ کس نے کہا تھا اظہار ذات مت سیکھو۔ بھید بھری خاموشی کو اوڑھنا بچھونا بنا لو۔ خوش ہو تو دور دور تک پتہ چلے، اداسی ہو تو غصے کا گمان گزرے۔ سب سیکھا یہ کیوں نہیں سیکھا کہ سب کہو لیکن اس انداز سے کہ سننے والا سمجھے نہ کہ سوچے انداز جارحانہ ہے۔
دل کی ضد اپنی جگہ لیکن جس تنہائی کو خود تخلیق کیا گیا ہے اس کا کیا کیا جائے ؟دوستوں سے دوری کا سبب یہی خاموشی۔ حیات عجیب موڑ پہ آ کھڑی ہوئی تھی جہاں کوئی منزل سامنے نہ تھی لیکن سفر شدت سے درکار تھا۔ ایسے میں تعلق اور رشتے کھوئے بھی تو دل میں ذرا بھر ملال نہ تھا۔ بہت سے نئے لوگوں سے واسطہ نام نہاد دوستیاں خوش گپیاں ایسے لوگوں سے تعلق جو غلط بات کو غلط اس لیے نہیں کہہ پاتے تھے کہ ہمیں تنگ نظر نہ سمجھا جائے باغی خیال کو اس لیے سراہتے کہ پاگل پن بدرجہ اتم موجود ہے ہمیں کیا دو گھڑی کا ساتھ ہے ہنسو، کھیلو اور بس۔
ایسے میں تم نہ جانے کہاں سے چلے آئے وہ جسے دور رہ کے بھی اندازہ تھا دل کا ضدی پن انتہا پہ ہے۔ لیکن اسے بہلانے کے لیے حربے استعمال کیے جا چکے ہیں۔ جسے خبر تھی کہ یہ جو خودسر من مانیاں کرنے والی ہے اسے سمجھایا جائے تو کچھ سمجھ بھی لے گی۔ یہ جو ہر بات پہ دلیل مانگتی ہے کچھ حقائق کو خود بھی کھوج لے گی صرف راستہ دکھانے کی ضرورت ہے۔
یہ جو میرے تم ہو۔عجیب ہو۔تم سے رشتہ احترام کا ہے تو بے تحاشا بے تکلفی کا بھی ہے۔تم جو اندزہ لگا پاتے ہو کہ وقت ہنستے ہوئے آنکھوں میں نمی ہو گی تو مجھے حیران ہی تو کر دیتے ہو۔تم جانتے ہو مجھے تمہیں کبھی کچھ کہتے ہوئے خوف محسوس نہیںہوا۔کہ بات غلط سمجھی جائے گی ،غلط فہمی پیدا ہو گی، کبھی کہیں زندگی میں شرمندگی محسوس کرنا پڑے گی۔ میں تو تم سے اپنی اور خدا کی باتیں بھی بلا جھجک کر لیتی ہوں۔ اور تم کتنی سہولت سے الجھی گتھی سلجھا جاتے ہو بغیر کسی جھوٹی امید کا لالی پاپ دیے تم سچ بولتے ہو ،حقیقت کی بات کرتے ہو لیکن وہ حقیقت کبھی چبھتی نہیں سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ ہرنئے دن نئے سوالات ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تم ہنس پڑتے ہو کہ یار یہ کیا پاگل پن ہے۔ لیکن کہتے نہیں۔ جانتی ہوں صرف اس لیے کہ کہیں میں پھر چپ کا پردہ نہ اوڑھ لوں پھر کہیں راستے سے نہ پلٹ جاﺅں پھر کہیں تلاش کا سفر ادھورا نہ رہ جائے۔ جب ان دیکھے سراغ کو تلاشنے کی اذیت سے وقتی طور پہ نکلتی ہوں تو کھلکھلا کے ہنس پڑتی ہوں۔ لیکن وہ میں ہی کیا جو الٹا نہ سوچوں۔ ایک بات مکمل نہیں ہوتی کہ دوسرا سوال سر اٹھا لیتا ہے۔
تم نے دنیا کو دیکھا ہے۔ پرکھا ہے۔لوگوں کو جانتے ہو سمجھتے ہو۔میں سمجھنا نہیں چاہتی میرا تجربہ کہتا ہے کہ آج تک جسے سمجھا اس نے مجھے انسانوں سے دور کیا ہے اس لیے اندھا دھند اعتماد کرتی ہوں۔ کوئی بھی کچھ کہے یقین کر بیٹھتی ہوں۔ تم جب یہ سب سنتے ہو تو خوف سے لرز جا تے ہو کہ یہ بے وقوف لڑکی اپنے لیے کوئی مسئلہ نہ پیدا کر لے۔ پھر بھی براہ راست نہیں کہتے جانتے ہو منع کیا گیا تو بغاوت سر اٹھائے گی۔ہنسی مذاق میں مثالیں دینے لگتے ہو۔ میں سنتی ہوں ہنستی ہوں۔ بعد میں غور کرتی ہوں اور مان بھی جاتی ہوں۔ تم جانتے ہو جب پہلی بار ایسا ہوا تھا تو میں خود حیران رہ گئی تھی کہ کیا یہ میں ہی ہوں۔ پھر پرسکون ہو گئی کہ شاید یہی وہ مسیحا ہے جس کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلنے کی ضرورت نہیں بلکہ آنکھیں کھول کے سب سمجھ  کے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ میں جانتی ہوں تم نہیں چاہتے کہ میں تم پہ انحصار کر کے زندگی کا راستہ چنوں ،تم جانتے ہو کہ ہر ایک کی زندگی کا امتحانی پرچہ ہی الگ ہے۔ تم ماں لگنے لگتے ہو جوگرتے ہوئے بچے کو دیکھ کے منہ دوسری طرف کر لیتی ہے اس لیے نہیں کہ اسے بچے سے محبت نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ چاہتی ہے کہ بچہ خود سنبھلنا سیکھے۔ میں سیکھ جاوں گی۔ لیکن ابھی میں راستے میں ہوں اور ابھی۔ راستے کا انتخاب بھی نہیں ہوا بس حیران آنکھوں سے دیکھتی ہوں کہ کس سمت چلوں کہ اگر غلط سمت چل پڑی تو واپسی کا وقت شاید نہ مل سکے۔تم میری سوچ سمجھتے ہو لیکن اس مہربان ماں کی طرح بیٹھ کے مسکراتے رہتے ہو جو چاہتی ہے کہ بچہ اس کی انگلی پکڑے بغیر خود چلنا سیکھے۔ میں جانتی ہوں لیکن سمجھتی نہیں کہ مجھے محبتوں کو بلیک میل کرنا اچھا لگتا ہے ۔اس نروٹھے بچے کی طرح شور مچانا اچھا لگتا ہے جو توجہ کے حصول کے لیے بنا آنسو روتا ہے تاکہ تم توجہ دو ،بات سنو میری، الجھی گتھی سلجھاﺅ۔ تمہیں میری بات کہنے کے انداز سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ گڑبڑ ہے، میں لاکھ کہوں سب ٹھیک ہے پھر بھی جان لیتے ہو۔
ایسا نہیں کہ تم بہت سمجھدار ہو اور اس سمجھداری نے تم سے تمہارا اندر کا معصوم بچہ چھین لیا ہے بلکہ تم بھی وہی معصوم بچہ ہو جو کسی کی طرف مسکرا کے دیکھتا ہے تو اس سے بھی اتنی ہی سچی اور بے لوث محبت چاہتا ہے جو اس کی مسکراہٹ میں ہوتی ہے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ لوگ وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں ۔ تم جب اپنے پیاروں سے بچھڑتے ہو تو آنکھیں ضبط سے سرخ ہو جاتی ہیں، رفاقتیں راستے بدلتی ہیں، بے اعتنائی دکھاتی ہیں تو تمہارا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ خلوص کا جواب خود غرضی سے ملتا ہے تو تم کملا جاتے ہو۔ لیکن پھر بھی کہتے کچھ بھی نہیں صرف اتنا کہتے ہو ۔ میں نے دل میں ان لوگوں کا مقام بدل دیا ہے۔ تو ایسا اتنی آسانی سے کیونکر ہو سکتا ہے۔ اتنا آسان تو نہیں ہے محبت کھو کے مسکرانا۔ پھرایک طویل جنگ کے بعد خود کو سنبھال کے خلوص اور پیار کی تلاش میں نکل پڑتے ہو۔ لیکن شکوہ پھر بھی نہیں کرتے کہ تمہارا ظرف اجازت نہیں دیتا کہ جن لوگوں کو آسمان کی بلندیوں پہ رکھا انہیں اپنی نظروں کے سامنے شرمندہ ہوتے دیکھو۔ تمہارا دل اور بڑا ہو جاتا ہے اس میں مزید محبت بھر جاتی ہے۔ محبت کی یہی تو خاصیت ہے جتنی بڑھاو بڑھ جاتی ہے اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ تبھی تو تم دعاﺅں کے حصار میں ہو ۔تم دلوں کی عبادت گاہوں کو مسمار نہیں کرتے کسی کی عزت نفس کی لاش پہ اپنا قد بلند نہیں کرتے۔ تبھی تو تم بلند قامت ہو، تبھی تو لوگوں کو تم سے شکوے ہیں کہ وہ تمہارے سامنے بونے لگنے لگتے ہیں۔ نہ جانے کیوں وہ محسوس نہیں کر پاتے تمہاری روشنی کے حصار کو۔ کر پائیں گے لیکن وقت لگے گا۔ تم ہی تو کہتے ہو سب اپنے وقت پہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ دیکھو مان لیا ،ہو جائے گا۔ میں بہت بولتی ہوں نا۔ لیکن بات صرف تم سے ہی کرتی ہوں ورنہ لفظ ادا ہوتے ہیں، آواز پیدا ہوتی ہے لیکن سب سے بات تھوڑا ہی ہوتی ہے۔ وہ تو بس تم سے ہی ہوتی ہے اور لگاتار ہوتی ہے کہ تم میرے ہر سو ہو۔ اے میرے تم،تم میرے رہبر، میرے دوست، میرے ہم زاد ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).