میں ایک شتر مرغ ہوں


\"husnainمیں نے اپنا سر اس وقت ریت میں دبایا ہوا ہے۔

ریت کے اندر میری آنکھیں بند ہیں۔ سورج سوا نیزے پر ہے۔ زمین کے اندر بھی گویا ایک تنور ہے جس میں میرا سر دہک رہا ہے۔ میری ٹانگیں غصے اور تھکن سے کپکپا رہی ہیں۔ لو کی تپش بڑھتی جا رہی ہے۔ چاروں طرف سے دشمن میری جانب بڑھتے چلے آ رہے ہیں مگر مجھے نظر نہیں آتے۔ میں دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔

مجھے میرے دوست ایک طویل عرصے سے بتا رہے ہیں کہ دشمن اپنی پوری تیاریوں کے ساتھ مجھے مارنے آئے گا۔ مگر جب مجھے نظر ہی نہیں آتا تو میں کیسے ان کی بات مان لوں۔ مجھے میرے دوستوں نے جنگل کے قانون کا حوالہ دیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب کوئی عفریت حملہ آور ہونے کو ہو تو ہم سب ایک دوسرے کو خبردار کرتے ہیں، لیکن جب وہ اتنا قریب نظر آئے کہ ہماری آوازیں سن لینے پر قادر معلوم ہو تو ہم بولنا بند کر دیتے ہیں۔ جس دن تمہیں ایسا سناٹا محسوس ہو جائے، تم جان لینا کہ دشمن سر پر آن پہنچا۔

مجھے میرے دوستوں نے بتایا کہ دشمن باقاعدہ اپنے آنے کے اعلان کر رہا ہے۔ انہوں نے مجھے لکھے ہوئے اشتہار لا کر دکھائے۔ مجھے نظر ہی نہیں آتے، میں کیا کر سکتا ہوں۔ میں کیسے ان کی بات مان لوں؟

مجھے میرے دوستوں نے کچھ اور ثبوت لا کر دئیے، میرے گروہ کے تمام ارکان کو وہ ثبوت پیش کیے، اب یہ کمال کی بات ہے کہ سب کو دکھائی دئیے مجھے پھر بھی نظر نہیں آئے۔ یا تو میری نظر کا قصور ہے یا ان کی نیت میں فی ہے۔ ان کی نیت میں ہی کچھ گڑبڑ ہے۔ میں تو سرد و گرم چشیدہ ہوں۔ مجھے دھوکا کیسے ہو سکتا ہے۔ اور بات بھی تب ہو جب مجھے کچھ نظر آئے۔

پھر میرے رفیق میرے پاس اس گروہ کو لے آ کر آئے جو پہلے ہی اس عفریت سے متاثر تھا۔ وہ تعداد میں اکتیس تھے۔ وہ بہت بدحالی کا شکار تھے۔ ان کے زخموں سے خون رس رہا تھا اور ان میں سے بارہ تو قریب المرگ تھے۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب لوگ مجھ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس عفریت کا ہمارے اس امن پسند خطے میں کیا کام ہو سکتا ہے۔ ہم لوگ تو نہ کسی لینے میں ہیں نہ دینے میں۔ کوئی ہمارا دشمن کیوں ہو سکتا ہے۔ ہمارے دشمن تو قدرت نے ایک ایک کر معدوم کر دئیے۔ جو بچے ہیں، آج بھی ان کی دموں پر ہمارا پاﺅں ہے۔

اس کے بعد میرے ہم درد میرے پاس مختلف واقعات بیان کرنے آئے۔ وہ ایک ایک کر کے اپنی بپتا سناتے جاتے تھے، کہ اس عفریت نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ میں ہر ایک کو اسی ترتیب سے بتاتا جاتا کہ اے کم عقل ذی روح، تجھے پیدا کرنے والی تیرے سوگ میں بیٹھے، تیرا یہ حال اس عفریت نے نہیں کیا ہے بلکہ یہ تو چاروں اطراف پھیلے مختلف شر پسند گروہوں کی کارروائیاں ہیں۔ تو جس عفریت کا نام لے کر زار زار روتا ہے، اس کا تو علم بردار تک ہمارے اس علاقے میں کوئی نہیں ہے۔ وہ میری بات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ ان کی آنکھیں کہے دیتی تھیں۔ مگر یقین کرنا ان کی مجبوری تھا۔ یہ میں جانتا تھا۔ یقین دلوانا میری مجبوری تھا۔ جب مجھے کچھ نظر ہی نہ آئے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔

پھر مجھ جیسے کچھ اور آئے۔ انہوں نے میرے سامنے باقاعدہ اپنی آواز بلند کی اور مجھے مجبور کیا کہ میں بھی ان کا جواب اسی تند مزاجی سے دوں۔ میں نے وہ بھی کیا۔ میں مجبور تھا۔ عفریت کا نام و نشان دور دور تک نہیں تھا مگر ان کو موت کے خوف نے موت سے پہلے آ لیا تھا۔ وہ یقیناً نادان تھے۔ ان میں فلاح پانے والا کوئی ایک بھی نہ تھا۔

انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ عفریت کے جسم کا ایک ٹکڑا اب بھی ہماری کمین گاہوں کے بیچ موجود ہے۔ وہ اس امر کا اعلان ہے کہ عفریت کی آمد آمد ہے۔ وہ ایک ٹکڑا بھی ہمارے لیے بہت خوف ناک ہے۔ اس کا کچھ بندوبست کر دو۔ مجھے وہ ٹکڑا بھی نظر آنا بند ہو گیا۔ عفریت نے تو جب بھی آنا ہے، سالم آنا ہے۔ یہ بات مجھے بڑوں نے بتائی تھی اور ان کے مطابق یہ عین الیقین ہے۔ اور میں اپنے اس علم الیقین کے بوتے پر یہ جان پایا کہ یہ لوگ بالکل غلط بیانی کرتے ہیں اور عفریت ان کے حواس پر سوار ہے۔

پھر یوں ہوا کہ عفریت نے میرے بچے شکار کرنا شروع کر دئیے۔ پہلا حملہ کیا، میرا سر ریت میں تھا۔ دوسرا حملہ ہوا، میں نے سر باہر نکالا، دوستوں کو تسلی دی کہ یہ کام عفریت کا نہیں ہو سکتا۔ اس کا طریقہ شکار اور طرح کا ہوتا ہے۔ اور پھر اپنا سر ریت میں دبا لیا۔

اس طرح دنوں کے اوپر پیر رکھ کر راتیں آتی گئیں اور راتوں کو روندتے ہوئے صبحیں طلوع ہوتی رہیں۔ حق الیقین کا دن آن پہنچا۔

عفریت میرے سر پر ہے۔
میں نے اپنا سر اس وقت ریت میں دبایا ہوا ہے۔

ریت کے اندر میری آنکھیں بھی بند ہیں۔ سورج سوا نیزے پر ہے۔ ریت کے اندر بھی گویا ایک تنور ہے جس میں میرا سر دہک رہا ہے۔ میری ٹانگیں غصے اور تھکن سے کپکپا رہی ہیں۔ لو کی تپش بڑھتی جا رہی ہے۔ چاروں طرف سے دشمن میری جانب بڑھتے چلے آ رہے ہیں مگر مجھے نظر نہیں آتے۔ میں دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔

جی ہاں۔ میں ایک شتر مرغ ہوں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments