اپنا ٹیلنٹ بیچیے اپنی عزت نہیں


نوکری کیا ہوتی ہے، کتنی طرح کی ہوتی ہے، نوکر کون لوگ ہوتے ہیں، مالک اور ملازم میں کیا فرق ہے؟ کیا مالک پیسے والے آدمی کو کہتے ہیں جو آپ کو صرف پیسے دینے کی حیثیت رکھتا ہو، مالک کتنی طرح کے ہوا کرتے ہیں، کیا مالک کیلئے عزت دار ہونا ضروری ہوتا ہے یا کوئی بھی مالک بن سکتا ہے اور ہم اس کے ملازم؟ کیا ملازمت کا کوئی کردار ہواکرتا ہے یعنی اچھی ملازمت اور گندی ملازمت، ملازمت کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ کیا ہمیں پیسے کے حصول کیلئے ہر کام پر رام ہوجانا چاہئے، نوکری یا ملازمت کا تو کردار نہیں ہوتا لیکن آپ کا تو ہوتا ہے،آپ میں عقل ہوتی ہے شعور ہوتا ہے، پیسے کی ضرورت کو پوار کرنے کے کون کون سے ذرائع ہیں، ہم کیا ہر ذریعے سے پیسہ کماسکتے ہیں، کیا پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے، کیا ہماری عزت کا کوئی دام نہیں ہوتا؟

کچھ لوگ کہتے ہیں پیسہ آجاتا ہے،انسانی جان کا کوئی مول نہیں، جان ہے تو جہان ہے، پیسے کی نہیں جان کی فکر کرو، جان رہے گی تو پیسہ بھی کمالو گے، لیکن یہاں میں پوچھتی ہوں کہ اگر عزت چلی جائے تو کیا وہ کمائی جاسکتی ہے؟ کیا پیسہ ہر درد کی دوا ہے؟ کیا ہمیں ہمارا شوق اگر کسی ایسے کنارے پر لے جارہا ہے جو کنارا نہیں اصل میں بازار نیلامی ہے، آپ کی عزت کی بولی کا بازار ،جہاں مختلف لوگ آپ کی بولی لگارہے ہوں کہ آﺅ درد دل کی دوا لے لو ،کمانا ہے تو جسم دے دو۔ کون لوگ بولی لگاتے ہیں اور کون سامان تجارت بن جاتے ہیں؟ بزنس کی لینگوئج میں وہ سامان جو مہینے کے آخر میں بچ جاتا ہے،اینڈنگ انوینٹری کہلاتا ہے یعنی جو سامان بکنے سے رہ گیا کیونکہ کوئی صحیح گاہک نہیں آیا جو اس انوینٹری کو خریدتا یا اس کی بولی لگاتا۔

میں یہاں خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے خاص کر مخاطب ہوں کہ آپ خدارا کسی دکان میں رکھا ہوا سامان نہیں جو گاہک خریدے، کسی دکان کی اینڈنگ یا بگننگ انوینٹری نہ بنیں کہ اگر اس مہینے میں فروخت سے رہ گئیں تو اگلے مہینے شاید بک جائیں۔ اپنے وجود کو لوگوں کی ہوس کا نشانہ نہ بننے دیں، روزی کی خاطر اپنی روح آلودہ نہ کریں، نوکری کی خواہش کو خوشی نہ بنائیں۔

آئے دن اخبارات اور ٹیلی ویژن پر مواقع کے نام سے اشتہارات آتے ہیں، نوجوان لڑکے لڑکیاں ٹیلی ویژن کی کشش اور مقبولیت کا خواب لئے ایسے اشتہارات پر دیئے گئے نمبرز پر رابطہ فرماتے ہیں، وہ آپ کو بڑی اچھی اچھی باتیں بتاتے ہیں آپ کی سکیورٹی کے حوالے سے اور ڈیٹا پرائیویسی کے نام پر ایک عدد فارم آپ سے فل کر واتے ہیں، وہ ہوتا تو ایک چھوٹا سا کنٹریکٹ ہے جس کے تحت آپ اس پروڈکشن ہاوس یا ایجنسی میں بتائی گئی پالیسی کے تحت کام کرتے ہیں، کچھ نکات آپ کو بڑے سلیقے طریقے سے بتائے اور سمجھائے جاتے ہیں اور آپ خوشی کی تاب نہ لا کر وہ فارم پر کردیتے ہیں۔ ایک عدد پورٹ فولیو کی بھی ایسے افراد کی طرف سے آپ سے درخواست کی جاتی ہے جو استعمال کیا جانا ہوتا ہے مستقبل میں آپ کو میڈیا انڈسٹری میں ان کرنے کیلئے، گزارش کروں گی ایسے کسی اشتہارات پر بغیر کسی تصدیق و آگاہی کے رابطہ نہ فرمایا کیجئے، آپ کو نہیں پتہ اشتہار دینے والا کون ہے، کہیں وہ خود تو اشتہاری نہیں؟ آپ کیسے کسی اشتہار دینے والے پر اندھا دھند یقین کرسکتے ہیں، نہیں کیجئے خدارا، آپ کو نہیں پتہ کون آپ کو کہاں لے جائے گا اور کیا حشر کرے گا آپ کا۔

اگر آپ کو ٹیلی ویژن میں کام کرنے کا شوق ہے اور آپ اس شوق کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو پہلے کسی ایسے شخص سے رابطہ کیجئے جو اس فیلڈ میں ہے یا کم از کم نہیں بھی ہے تو آپ کا خیر خواہ ضرور ہے، کسی بھی اشتہار پر رابطہ کرنے سے قبل والدین کو ضرور اعتماد میں لیں، انہیں بتائیں کہ امی ایسا اشتہارآیا ہے اور میں کام کرنا چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں، پہلے ان سے پوچھیں، جانا ہے تو پوری معلومات کے بعد والدین یا سرپرست کے ساتھ جائیں تاکہ جس کے پاس جا بھی رہے ہیں وہ آپ کو لاوارث نہ سمجھے اور فائدہ نہ اٹھائے۔

جو اشتہارات آپ اخبارات میں دیکھتے ہیں وہ زیادہ تر جعلی ہوتے ہیں خاص کر جو میڈیا میں مواقع کے نام سے شائع ہوتے ہیں اس لئے اپنے ساتھ تجربات کرنے سے گریز فرمائیں۔

میڈیا یا ٹیلی ویژن ایسی انڈسٹری ہے جہاں زیادہ تر جان پہچان پر چلتی ہے، جو لوگ برسوں سے اس فیلڈ میں ہیں ان ہی کی آل اولاد اس فیلڈ میں پیش پیش ہے ۔یہاں یہ بھی وضاحت کرنا چاہوں گی کہ پرفارمننگ آرٹس اور جرنلزم میں بہت فرق ہے، یہاں میری مراد ہر گز صحافی حضرات سے نہیں۔

صحافت ایک بالکل الگ شعبہ ہے، اور بہت باعزت اور باوقار سمجھا جاتا ہے، صحافی حضرات کے پاس زیادہ تر ماس کمیونیکیشن یا پھر پولیٹیکل سائنس کی ڈگری یا ڈگری نہ بھی ہو خاص شعبے کی، تو وسیع تجربہ ہوا کرتا ہے تعلیمی یا پھر پرنٹ میڈیا جسے آپ اخبارات کہتے ہیں جس کی بنا پر وہ کسی بھی ادارے سے منسلک ہوتے ہیں۔

آپ کسی بھی بڑے صحافی کو دیکھ لیجئے، پہلے وہ کام کرتا ہے بھر نام کماتا ہے اور پھر اپنے کام کے دام وصول کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس ٹیلی ویژن میں کام کرنا ایکٹنگ کرنا یا اشتہارات میں ماڈلنگ کرنے کیلئے آپ کو کوئی ڈگری درکار نہیں ہوتی۔ زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو وہ ہوتی ہے جسے آپ ’ناپا‘ کہتے ہیں یعنی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹس، جس کے ذریعے آپ ایکٹنگ، موسیقی اور تھیٹر سمیت دیگر پرفارمنگ آرٹس کے شعبے سے وابستہ ہوسکتے ہیں لیکن جان پہچان اور آپ کی اپنی قابلیت انتہائی لازم و ملزوم ہوتی ہے۔

پاکستان میں موروثی سیا ست کے ساتھ ساتھ موروثی ملازمت بھی عرصہ دراز سے قائم ہے خاص کر فیشن انڈسٹری، جس میں فلمز، ڈرامے ،اشتہارات اور ماڈلنگ سر فہرست ہے۔

آپ کو ہر جگہ بڑے بڑے آرٹسٹوں کی اولادوں کی اولادیں نظر آئیں گی اور آپ کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا جب تک کہ آپ کی لمبی سفارش نہ ہو یا پھر آپ ہرحد سے گزر جانے کو تیار نہ ہوں، یہی ایک تلخ حقیقت ہے۔

میرا یہاں اس موضوع پر لکھنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ میں نوجوان نسل کو ڈراﺅں اور اس فیلڈ میں آنے سے روکوں، میں نے بہت سے لوگوں کو فیشن انڈسٹری میں آنے کیلئے کہتے سنا۔ اس شعبے میں آنے کیلئے مجھے ایکسپلائٹ کیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ اس فیلڈ میں ایکسپلائٹ ہونا پڑتا ہے،یہ ایک کی کہانی نہیں ہے کچھ بتا دیتے ہیں اور کچھ  مسکرا دیتے ہیں۔

میرا تعلق صحافت سے ہے اور مجھے اپنی پچھلی انٹر ن شپ کے دوران مختلف اداروں اور جگہوں پر جانا ہوتا تھا، میں اس وقت رپورٹنگ کے حوالے سے مختلف ایونٹس اٹینڈ کرتی تھی اور ایک ایسے ہی ایونٹ میں جب میں پورٹ گرینڈ گئی جو کراچی میں فنی سرگرمیوں سے متعلق تھا تو اس دوارن میں نے جب ایک آرٹسٹ کے منہ سے یہ کلمات سنے جن کا آپ سے ذکر کیا تو بہت دکھ ہوا، مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ آپ کو اس فیشن انڈسٹری میں اپنا دام لگانا پڑتا ہے اگر تو آپ کو کام کرنا ہے، لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی خواہش سے اس فیلڈ میں آتے ہیں اور انہیں یہ سب اس لیے برداشت کرنا ہوتا ہے کیوں کہ ان کا کوئی نہیں ہوتا جو ان کی صلاحیت کا اعتراف کرکے انہیں موقع فراہم کرے۔
پاکستان میں ماڈلنگ انتہائی بدنام شعبہ ہے، اگر جانا چاہتے ہیں تو یہ سوچ کر جائیے کہ آپ کچھ بھی سن سکتے ہیں اور کرنا نہ کرنا آپ کی اپنی مرضی ہے۔

کیا بولی صرف لڑکی کی عزت کی لگتی ہے؟ کیا مرد محفوظ ہیں؟ بولی کتنی طرح کی ہوتی ؟ کیا ہم یہ پتہ لگا سکتے ہیں کون ہماری بولی لگا رہا ہے؟ کیا چاہ رہا ہے؟ بولی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ان سب کا جواب بہت آسان ہے،خواہش کے ہاتھ باندھئے اور اپنے کردار کی بولی لگائیے جسم کی نہیں ، یعنی میں یہ کروں گی اور یہ نہیں کروں گی یا کروں گا، جب آپ کو اپنی قیمت کا خود علم ہوگا تو کوئی آپ کی قیمت ’بولی ‘نہیں لگا سکتا اس لئے اپنا ٹیلنٹ بیچئے ،عزت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).