چرمینہ کسی لڑکی کا نام نہیں   


\"naseerآپ نے جنس تبدیل ہونے کے کئی واقعات سنے ہوں گے۔ لڑکا سرجری کے بعد لڑکی بن گئی یا لڑکی اپریشن کے بعد لڑکا بن گیا۔ اسی طرح بعض اچھے بھلے لڑکے لڑکیاں، جو واضح طور پر مؤنث یا مذکر ہوتے ہیں، شوقیہ یا فیشن کے چکر میں تیسری جنس کا سانگ بنا لیتے ہیں۔ لیکن آپ نے کسی نظم کو کالم بنتے نہیں دیکھا یا سنا ہو گا۔ دنیائے ادب و صحافت میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ جی ہاں \’چرمینہ\’ کسی لڑکی کا نام نہیں، ہماری ایک نظم  تھی۔ تھی کا صیغہ اس لیے استعمال کیا ہے کیونکہ ایک روز جب ہم لکھنے بیٹھے تو وہ نظم، جس کے جمع متکلم جوتے تھے، آپی آپ  کالم میں ڈھل گئی اور بیاضِ شعر سے صفحہ ء ہستی سمیت غائب ہو گئی۔ ہمیں شروع ہی سے اس نظم کی وضع قطع پر شک تھا۔ پیدائش کے فوراً بعد ہی لگتا تھا کہ سوانگیا ضرور کوئی گل کھلائے گی۔ اچھا ہوا کہ اس نوزائیدہ نے بلوغت سے پہلے ہی روپ بدل لیا۔ اس \”کالم پرست\” میڈیا میں نظم کا کیا کام! ساری عمر مرد آسا مرد آزما اخباری دنیا  میں مردانی کی طرح رسوا رہتی یا مردانہ صحنک بنی رہتی۔ ویسے بھی وہ نظم ہونے کے باوجود خاصی بد نظم تھی لیکن مؤنث تھی اس لیے اس کا نام ہم نے چرمینہ رکھ دیا۔ اگر اس میں مذکر والا نظم یا نظم و ضبط ہوتا تو جوتا کہلاتی۔ لفظ چرمینہ، جس کا مطلب ہے چمڑے سے بنا ہوا یا بنی ہوئی، لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سننے میں الینا، سبینہ کی طرح نسائی لگتا ہے لیکن اصل میں یہ صفاتی ہے جو نہ تذکیری ہے نہ تانیثی۔ زبان کے بھی عجیب معاملات ہیں، لفظ تذکیر بذاتِ خود تانیث ہے۔ خیر تقلیبِ چرمی کے بعد اب وہ نظم نہیں رہی بلکہ کالم کا بہروپ دھارے آپ کے سامنے ہے۔  شاید جوتوں کو بھی اپنے جہانِ فن میں ہماری نظمیہ مداخلت پسند نہیں آئی تھی اسی لیے وہ ہمارے شعری لاشعور میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور شاعرانہ علامتوں، استعاروں اور پیکروں کو کالمانہ بلکہ ظالمانہ حقیقتوں کا روپ دے کر ہی چھوڑا۔ نظم کی اس کامیاب  \”کایا پلٹ\” کے بعد ہم سوچ رہے ہیں کہ شاعری چھوڑ کر \”جوتا نگاری\” بلکہ جوتا کاری شروع کر لیں۔ توقع ہے کہ یہ کارِ ذی شان و ذی وقار خوب چلے گا۔

\"0\"جوتے عام طور پر کمروں کے کونوں کھدروں میں پڑے رہتے ہیں یا گھروں کے بیرونی دروازوں کے پاس یا وارڈروبوں کے نچلے خانوں میں۔ یہ ہمیشہ دو یعنی جوڑے کی شکل میں ہوتے ہیں۔ دونوں ایک جیسے۔ رنگ روپ، ناک نقشہ، ڈیل ڈول سب کچھ ایک سا، بس ان میں ایک دائمی فرق ہے کہ ایک دایاں ہوتا ہے دوسرا بایاں۔ یہ فرق دائیں بازو اور بائیں بازو کے نظریاتی فرق کی طرح کبھی ختم نہیں ہوتا۔ جوتوں کے بغیر انسان چارکیا ایک قدم نہیں چل سکتا۔ جوتا ہو یا جوتی یا جوتے یا جوتیاں انسان کے لیے ان کے محاوروں کی مار ہی کافی ہے، جو اتنے زیادہ ہیں کہ کئی نظموں، معاف کیجیے، کالموں میں سما کر بھی ختم نہ ہوں۔ لیکن پھربھی وہ انھیں بےحقیقت سمجھتا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر جوتی کو جوتی پر مارنا شروع کر دیتا ہے۔ خاص طور پر مال و دولت  اور شہرت کے نشے میں بعض خود پرست تو ہر چیز کو جوتی کی نوک پر مارتے ہیں۔ بچے جوتوں کو الٹا یعنی دائیں کو بائیں اور بائیں کو دائیں پہن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور اپنے سیکولر ہونےکا ثبوت دیتے ہیں۔ لیکن بڑے ایسا کریں تو نہ صرف منہ کی کھاتے ہیں بلکہ منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔

انسانوں نے اپنی طرح جوتوں کو بھی زنانہ اور مردانہ میں تقسیم کر دیا ہے۔ بے چارے جوڑا کہلاتے ہیں مگر جفتی نہیں کر سکتے۔ عورتیں مردوں کے بجائے جوتوں پر زیادہ عاشق ہوتی ہیں۔ جوتے بھی ان کے پاؤں مرید ہوتے ہیں اور ہر وقت ان کے پاؤں میں سر دیے رہتے ہیں۔ جوتوں کو جوتے کہلانا پسند نہیں، انہیں نت نئے خوبصورت نام اچھے لگتے ہیں۔ اس لیےکبھی پاپوش، پیزار، پا افراز، پا افشار، کبھی زیرپائی، کبھی چپل، کبھی سینڈل، کبھی بوٹ کہلوا کر خوش ہوتے ہیں۔ جوتے اپنی فطرت میں بڑے \”ترقی پسند\” ہیں۔ جب محنت کش بچے دوسروں کے پاؤں پکڑ کر ان کے جوتے صاف کرتے اور پالش سے چمکاتے ہیں تو خود جوتوں کو یہ اچھا نہیں لگتا۔ لیکن وہ دنیا کا نظامِ زر بدلنے سے قاصر ہیں۔ سرمایہ دارانہ نطام اتنا مضبوط ہے کہ ساری دنیا کے جوتے مل کر بھی اس کے پاؤں نہیں اکھاڑ سکتے۔ پولیس کے ہاتھوں میں آ کر جوتوں کی دہشت دیدنی ہوتی ہے۔ بطور خاص پاکستانی پولیس کے ہتھے چڑھتے ہی جوتے جوتے نہیں رہتے، چھتر بن جاتے ہیں اور جب چھتر سے چھترول ہوتی ہے تو بڑے بڑے مجرم اقبالِ جرم کر لیتے ہیں۔ چھتروں کی مدد سے پویس ان سے ان جرائم کا بھی اعتراف کرا لیتی ہے جو انہوں نے کرنا تو درکنار ابھی سوچے بھی نہیں ہوتے۔ وردی والوں کی اصل طاقت بھی بوٹوں یعنی جوتوں کی مرہونِ منت ہے۔ اور جمہوریت تو ہے ہی جوتم پَیزار۔

\"02\"

احتجاج اور نفرت کے اظہار کے لیے جوتا کلچر اگرچہ قدیم ہے لیکن 14 دسمبر 2008ء کو جب عراقی صحافی منتظر الزیدی نے امریکی صدر جارج بش پر اپنا دس نمبری جوتا پھینکا تو جوتوں کی قدر و قیمت ایک دم بڑھ گئی اور پوری دنیا میں جوتا جاتی ہونے لگی۔ اس سے پہلے یہ کام گلے سڑے ٹماٹروں اور گندے انڈوں سے لیا جاتا تھا۔ تاہم سالوسی سامراج کے خلاف کفش کاری کے عمل میں جوتوں کا استعمال منتظر الزیدی ہی کا کارنامہ ہے۔ اس کے بعد تو جیسے ملکوں ملکوں شہروں شہروں جوتے ماری ہونے لگی۔ امریکی سیکرٹری خارجہ کونڈا لیزا رائس کو لوگ \”کندرا\” کہہ کر بلانے لگے جس کا مطلب جوتا ہے۔ بغداد میں پڑنے والے چمرس امریکہ، برطانیہ، آئرلینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا، چین، ہانگ کانگ، تائیوان، انڈیا، ایران، ترکی اور پاکستان تک پھیل گئے۔ اینٹی وار گروپ کوڈ پنک نے احتجاج کا ایک انوکھا طریقہ نکالا اور 17 دسمبر 2008 کو دنیا بھر میں امریکن سفارت خانوں کو اپنے اپنے جوتے پیش کیے۔ کینیڈا میں 20 دسمبر 2008 کو ایک بار پھر جارج بش پر جوتوں کی بارش کی گئی لیکن اس بار عراقی صحافی کی رہائی کے لیے۔ 20 فروری 2009 کو لندن میں یونورسٹی میں خطاب کے دوران چینی وزیر اعظم کو جوتوں کا نشانہ بنائا گیا۔ بھارت کے دورے کے دوران ایرانی صدراحمدی نژاد کی موٹر کیڈ پر جوتے پھینکے گئے۔ بھارتی وزیر داخلہ لال کرشنا ایڈوانی، وزیراعظم من موہن سنگھ، سابق صدور پرویز مشرف اورآصف زرداری بھی جوتا خوری کی لذت چکھ چکے ہیں۔ ہماری ملکی سیاست میں بھی جوتیوں میں دال بٹنے اور جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھسنے کا رواج نیا نہیں۔ پاکستان میں سوشلزم کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک بار الیکش مہم کے دوران بھرے جلسے میں کچھ لوگوں نے جوتے دکھائے تو وہ تقریر روک کر کہنے لگے ہاں مجھے معلوم ہےکہ جوتے بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔ بھٹو تو اپنی ذہانت کے باعث جوتوں کا رخ الٹا اپنے حق میں موڑنے میں کامیاب ہو گئے اور سیاست میں حاضر جوابی اور جوتا شناسی کی ایک نئی روایت قائم کی لیکن سندھ کے ایک سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم جب 7 اپریل 2008 کو سندھ اسمبلی کا حلف اتھانے کے بعد باہر نکلے تو ایک ورکر نے تاک کر ایسے جوتا پھینکا کہ ارباب رحیم کو دن میں تارے نظر آ گئے۔

\"01\"جوتوں اور انسانوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ جوتے بھی چمڑے سے بنتے ہیں اورانسانوں پر بھی چمڑہ مڑھا ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ انسان اندر سے گوشت اور چربی سے بھرا ہوتا ہے جبکہ جوتے اس وقت تک خالی رہتے ہیں جب تک انسان ان کے اندر پاؤں نہ رکھ دے۔ ویسے تو کچھ انسان بھی اندر سے خالی ہوتے ہیں، نہ روح نہ بھیجا، لیکن انسان میں یہ خوبی ہے کہ وہ جہاں بھی پاؤں رکھتا ہے اس جگہ کو بھر دیتا ہے۔ بہشت سے زمین پرآیا تو اب زمین پر یہ حالت ہےکہ کہیں پاؤں کیا تِل دھرنے کو جگہ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان آفرینش سے مرگ تک مختلف قسموں اور رنگوں کے جوتے کھا کھا کر ہی زندگی گزارتا ہے۔ اب تک تو جوتے جانوروں بشمول گدھوں کی کھالوں سے بنتے رہے ہیں لیکن جس طرح پاکستانی قصاب، سیاستدان، پولیس، کاروباری حضرات اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان دن رات عوام کی چمڑی ادھیڑنے میں لگے ہوئے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اگلے چند برسوں میں اس ادھڑی ہوئی انسانی چمڑی سے جوتوں کی صنعت خوب ترقی کرے گی اور اپنی جوتی اپنے سر والی مثال صادق آئےگی۔ دنیا میں انسانی آبادی کی طرح جوتے بھی کروڑوں اربوں کی تعداد میں بنتے ہیں۔ اورانسانوں ہی کی طرح مختلف برانڈ اور رنگوں کے ہوتے ہیں۔ کالے، براؤن، سفید، سرخ توعام ہیں۔ نیلے، پیلے، سبز، گلابی بھی کم نہیں۔ خواتین کے لیے تو یہ ہر رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ لیکن کالا اور براؤن رنگ انہیں بہت بھاتا ہے۔ جوتے بہت نرم چرم ہوتے ہیں جنہیں خوبصورت اور نازک پاؤں اچھے لگتے ہیں۔ اگر بے ڈھنگے پاؤں انھیں پہن لیں تو یہ ان کو تنگ کیے، کاٹے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اور جوتے چاہے نظم میں ہوں یا کالم میں یا پاؤں میں، ان کے کاٹے کا کوئی علاج نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments