دو گمراہ پاکستانی لڑکیوں کی اصل داستان


دو گمراہ پاکستانی لڑکیوں کی کہانی ۔۔ چھپی تو اتنی مقبول ہوئی کہ اسے اب تک لاکھوں افراد پڑھ چکے ہیں۔ اس تحریر پر بہت دلچسپ رد عمل ملا۔ پڑھنے والوں کی اکثریت کو اس میں صرف نرگس ماول والا ہی نظر آئیں۔ چند ایک کو ملالہ بھی مل گئی۔ بہرحال عمومی تاثر یہ بیان کیا گیا کہ یہ نرگس ماول والا اور ملالہ کی تحریر ہے۔

ظالمو تم نے پڑھا کیا ہے؟ ثاقبہ کاکڑ جو اس کالم کی اصل محرک تھی، وہ کیوں نظر نہیں آئی ہے؟

کل صبح گیارہ بجے کے قریب استاد محترم ڈاکٹر مجاہد مرزا صاحب کا پیغام ملا۔ ’عدنان، ثاقبہ کاکڑ کی خودکشی پہ کچھ نہیں لکھا؟ لکھو، تم تو بسیار نویس ہو‘۔

عرصہ گزرا کہ خاکسار بریکنگ نیوز چینل دیکھنا ترک کر چکا ہے۔ اس لئے اسے اس واقعے کی خبر نہیں تھی۔ اس واقعے کی تفصیلات ڈھونڈنی شروع کیں تو دل تھم سا گیا۔ ہم والدین کی مجبوری ہوتی ہے کہ جب کسی بچے کو دیکھتے ہیں تو اپنے بچے یاد آ جاتے ہیں۔ ملالہ کو گولی لگی تھی تو سیدھی ہمارے دل پر ہی لگی تھی کہ اپنی بچی اسی عمر کی تھی۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تھا تو اپنے سکول جاتے بچوں کا ہی خیال آیا تھا۔ اب ثاقبہ کاکڑ کی خبر کی تفصیلات کا علم ہوا تو پھر بھی اپنی بچی ہی یاد آئی۔ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔

اس وقت یہ عاجز، نرگس ماول والا پر ایک طنزیہ تحریر، ایک تنگ نظر شخص کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے لکھنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ لیکن اب سب کچھ تلپٹ ہو چکا تھا۔ پھر یہی مناسب سمجھا کہ تین لڑکیوں پر پوسٹ لکھی جائے۔ پہلی وہ جو تعلیم حاصل کرنے کی چاہ میں ماری گئی، دوسری وہ جو تعلیم کے شوق میں قاتلانہ حملے کا شکار ہو کر بمشکل زندہ بچ پائی۔ اور تیسری وہ جو تعلیم پا کر دنیا کی ایک اہم ترین سائنسی دریافت کرنے میں کلیدی رول کی حامل ٹھہری۔

بچیوں کی تعلیم کے بارے میں یہ عدم برداشت دیکھ کر ایک فیصلہ کیا کہ نرگس ماول والا کو ایک شدت پسند ذہن کے مطابق پینٹ کیا جائے تاکہ بچیوں کو تعلیم دلانے کے تمام تر ‘نقصانات’ سامنے آ جائیں۔ اگر ہمارے ملک میں عورت ہونا ایک بڑا جرم ہے، تو ایک اقلیتی فرد ہونا اس سے بھی بڑا جرم۔ اور پارسی، یعنی ‘آتش پرست مجوسی’ ہونا تو وہ جرم عظیم ہے کہ اس سے بڑا جرم صرف احمدی ہونا ہے۔ لیکن بات یہیں کہاں ختم ہوتی ہے۔ نرگس تو بن بیاہی ماں بھی ہے، اور ہم جنس پرست بھی۔ ان میں سے ہر جرم ایسا ہے جسے ہمارے انتہا پسند قابل گردن زنی قرار دیتے ہیں۔ ایسی عورت جو ان جرائم پر ہمارے معاشرے میں کسی جنونی کے ہاتھوں کم از کم چار مرتبہ سزائے موت کی مستحق ٹھہرتی ہے، بھلے وقتوں میں گردن بچا کر ملک سے باہر نکل جاتی ہے اور انسانی تاریخ کی اہم ترین دریافتوں میں سے ایک اس کی بدولت ممکن ہوتی ہے۔

نرگس کی دریافت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گریوی ٹیشنل ویوز دریافت کرنے والی ٹیم کو فزکس میں نوبل انعام ملنا تقریباً یقینی سمجھا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ آج تک صرف دو خواتین کو فزکس میں نوبل انعام دیا گیا ہے۔ میری کیوری کو 1903 میں اور ماریا گوپرٹ مائیر کو 1963 میں یہ انعام ملا تھا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نرگس کے معاملے میں اس کی ہم جنس پرستی کا ذکر کیوں کیا گیا ہے، تو بہتر ہے کہ اعتراض اٹھانے سے پہلے آپ اس خاتون کو گوگل کر لیں۔ یہ خاتون دو ہزار چودہ میں امریکہ ہم جنس پرست سائنسدانوں کی تنظیم کی تقریب میں کی نوٹ سپیکر، یعنی مرکزی مقرر کی حیثیت سے تقریر کر چکی ہے۔ وہ ہم جنس پرستی کے مبلغین میں سے ہے۔ وہ ہم جنس پرست طلبا و طالبات میں ایک رول ماڈل سمجھی جاتی ہے۔ جس زندگی کو آپ ذاتی قرار دے رہے ہیں، اسے وہ عوام میں خود لے کر آتی ہے۔ وہ خود یہ کرتی ہے تو پھر اس پر لکھنے والے کے لئے بھی یہ امر جائز ہے کہ اس کی ذات کے اس پہلو پر بات کر لی جائے۔

جب ہمارے معاشرے میں ہم جنس پرستی پر عوامی سطح پر بات کی جاتی ہے، تو اسے مغرب کی بد ترین اخلاقی گمراہی قرار دیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اس سے پاک ہے۔ لیکن ہمارے اپنے معاشرے میں عملی طور پر اسے روا سمجھا جاتا ہے۔ کیا ہمارا قدیم ادب اس ذکر سے خالی ہے یا اس پھر میں بکثرت عجمی ذوق کے اشارے ملتے ہیں؟ کیا ہمارے معاشرے میں، خاص طور پر کم عمر بچوں کے ساتھ، آج بھی اسے معمول کی بات نہیں سمجھا جاتا ہے؟ یہ تضاد بس صرف ہمارے معاشرے کی منافقت ہے، اور کچھ بھی نہیں۔ سو نرگس کے معاملے میں بھی اپنے تئیں بلند اخلاقی مقام پر کھڑے ہو کر اس کا یہ گناہ گنوایا گیا ہے جو گناہ زبانی کلامی طور پر ہمارے معاشرے میں مغرب کی خامی ہے لیکن عملی طور پر ہمارے معاشرے میں درجہ قبولیت رکھتا ہے۔

لیکن اس کا تقابل کس سے ہے؟ اس سے جو نرگس کی طرح ہی علم حاصل کرنا چاہتی تھی۔ وہ متواتر چھے ماہ احتجاج کرتی رہی کہ اسے تعلیم کا حق دیا جائے۔ لیکن نہ تو اس حکومت نے اس کی بات سنی جس نے اب اس کی موت کی خبر میڈیا پر آنے پر ‘انکوائری’ کا حکم دے کر اپنا فرض پورا کر دیا ہے، اور نہ ہی اس کی پرنسپل کے دل میں رحم آیا۔

کیا وجہ ہے کہ جن پاکستانی خواتین کو ساری دنیا عزت دے رہی ہے، انہیں ہم قابل نفرت گردانتے ہیں؟ ثاقبہ تو حالات کے سامنے ہار مان کر خودکشی کر بیٹھی، لیکن ملالہ نے طالبان کے خلاف ایک سٹینڈ لیا۔ دنیا میں ملالہ کا معاملہ نمایاں ترین ہے۔ ہمارے سربراہان مملکت کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ہو تو ہال خالی پڑا ہوتا ہے۔ لیکن جب اقوام متحدہ خود دعوت دے کر ملالہ کو جنرل اسمبلی سے خطاب کی دعوت دے تو یہ ہال دنیا بھر کے سربراہان مملکت سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ وہ اس سے ملنا اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتے ہیں جو ہمارے حکمرانوں کو پانچ منٹ کی ملاقات کا وقت دینے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن ملالہ ہمارے لئے قابل نفرت ہے۔ اسے برداشت کیا جائے تو دنیا بھر میں وہ اتنی اہم ہے کہ پاکستان کے لئے بہت کچھ کر سکتی ہے۔

اگر ہم اپنے لوگوں کو برداشت کر لیں اور انہیں زندہ رہنے دیں اور علم حاصل کرنے دیں، تو وہ کیا نہیں کر سکتے ہیں؟ بس یہی نوحہ لکھا ہے کہ انسان کو انسان سمجھیں اور سب کو لکھنے پڑھنے اور زندہ رہنے کا حق دیں۔

ہماری رائے میں کسی قوم میں اگر غور و فکر اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے تو اس کی بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ نکتہ آفرینی کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے۔ طنز و مزاح اس کے سر پر سے گزرنے لگتے ہیں۔ اور اس  قوم کے افراد لطیفہ ختم ہونے پر  یہ پوچھنے لگتے ہیں کہ ’پھر اس کے بعد کیا ہوا‘؟

دو گمراہ پاکستانی لڑکیوں کی کہانی

عدنان خان کاکڑ سے آپ ان کی فیس بک وال پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments