انور مسعود کے کوفتے اور جہادی طالبان


بوٹی لئی تے ٹوکے دے نال قیمہ قیمہ کیتی
محنت کر کے اس قیمے دی فیر بنائی بوٹی
فیر بنایا قیمہ اسدا رکھ کے دنداں تھلے
شاوا بلے بلے
میں سالن کھاواں نالے ہساں تِما تِما
بوٹی قیمہ، قیمہ بوٹی، مڑ بوٹی دا قیمہ
کوفتے ورگا لگا مینوں سارا سفر اساڈا
پانی دے وچ پینڈا کچھیا کھا کھا لمے غوطے
جیہڑی تھاں توں ٹرے ساں انور، اوتھے ای آن کھلوتے

انور مسعود کی اس نظم کا طالبان بنانے اور مارنے اور پھر دوبارہ بنانے سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ میرے نزدیک کوفتوں اور طالبان میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ذرا سی ہوا بدلتی ہے تو یہ بوٹی سے قیمہ اور قیمے سے بوٹی بن جاتے ہیں۔

80 کی دہائی میں چلتے ہیں۔ ایک سوپر پاور روس افغانستان آتی ہے تو دوسری سوپر پاور امریکہ اس کے مقابلے میں میدان میں اُترتی ہے۔ یوں جہادی کوفتے بنانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ گوشت کا ٹوکے سے قیمہ بنایا جاتا ہے تا کہ اس کے کوفتے بنائے جاسکیں۔ امریکہ ہتھیار اور ڈالر جب کہ سعودیہ ریال لاتا ہے۔ اور ہم ان کو ذہن سازی کر کے مجاہدین مہیا کرتے ہیں۔ ان کی بہادری کے خوب چرچے ہوتے ہیں۔ ملک میں جگہ جگہ مدرسے بنتے ہیں۔ شدت پسند بیانیے کو سپورٹ کیا جاتا ہے اور کلاشنکوف جہاد کا باب کھلتا ہے۔ اور سب کچھ ملا کر جہادی کوفتے تیار کئے جاتے ہیں۔ خیر روس گُھٹنے ٹیک دیتا ہے اور ہار کر واپس چلا جاتا ہے۔ تو ہم افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔

وقت گزرتا جاتاہے اور کچھ مجاہدین ہمیں بھی آنکھیں دکھانے لگتے ہیں۔ وہ مجاہدین شرپسند قرار دے دئیے جاتے ہیں۔ باقی پھر بھی مجاہدین ہی رہتے ہیں۔ چند سال اور گزرتے ہیں تو یہی مجاہدین امریکہ پر بھی اعلانِ جنگ کر دیتے ہیں اور نائن الیون کا واقعہ ہوتا ہے۔ اس بار ہمارے حکمران مجاہدین کے معاملے میں آپس میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ کچھ امریکہ کے ساتھ مل کر ان کو دہشتگرد قرار دے دیتے ہیں اور کچھ ان کو مجاہدین ہی کہتے ہیں۔

جنرل مشرف کی حکومت زور شور سے امریکہ کے اتحادی بنتے ہیں اور یوں سٹیٹ لیول پر انہی کل کے مجاہدین کو دہشتگرد ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے۔ اور یوں دوسری بار دانتوں کے نیچے رکھ کر بوٹی کا دوبارہ قیمہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن مشرف دور میں ہی ان کی پُشت پناہی بھی جاری رکھی جاتی ہے۔ یہ پاکستان میں کُھل کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ ہزاروں پاکستانی ان کے خودکش دھماکوں میں مارے جاتے ہیں۔ لیکن پوری قوم تقسیم ہوجاتی ہے۔ شدت پسند بیانیے سے وابستہ مذہبی علما، کچھ رئیٹائیرڈ جرنیل اور سیاستدان جن میں عمران خان اور جماعتِ اسلامی شامل ہیں ان کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے۔ اور بہانے بہانے سے ہر سطح پر ان کی ترجمانی کرتے ہیں۔

تین دہائیاں  ہونے کو ہے مگر ہم ابھی تک ان کو بنانے، توڑنے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی یہ قیمہ کی صورت میں ہم میں موجود ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ریاست ان کو دوبارہ جوڑ کر ان کے کوفتے بناتی ہے یا پھر اس بار اس قیمہ کو چبا لیا جاتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہضم کر لیا جاتا ہے۔

پانی دے وچ پینڈا کچھیا، کھا کھا لمبے غوطے

جیڑی تھاں توں ٹُرے ساں عبدل، اوتھے ای آن کھلوتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).