سینڈل کی ایڑھی پہ دھری فکری نارسائی


\"farnood01\"تحیر کا ایک ہالہ ہے، اور میں ہوں۔ انتہا پسندی کے خلاف لڑتے لڑتے میرے بزرگ کس نامعلوم انتہا پہ جا کھڑے ہوئے، خود انہیں بھی شاید غالب کی طرح وہاں سے خبر نہیں آتی۔ یعنی کہ انتہا پسندی کا مفہوم یہ ہوا کہ مذھب آپ کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اور روشن خیالی کا مطلب یہ ہوا کہ میں مذہب سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ کیا لبرل ازم سے وابستہ انتہا پسندوں کا ایک گروہ اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ ان کی فکری مفلسی اور اخلاقی بانجھ پن سے انتہا پسندی کی کس قدر بیہودہ شکل برامد ہورہی ہے؟ این جی اوز والے اور سمندر پار بیٹھے محب وطن بزرگوں کا یہ گروہ چاہتا کیا ہے؟ آپ دشنام طرازی اور الزام تراشی کے کسی عالمی مقابلے میں کھڑے ہیں، یا پھر ایک بہتر سماج کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں؟ اگر تو بات دوسری ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ مکالمے سے فرار کیوں چاہتے ہیں؟ الزام کا مطلب سمجھتے ہیں؟ اور گالی کا مطلب؟ یعنی کہ دلیل کو آپ مکالمے کی بنیاد ہی نہیں مانتے۔ مطلب کیا ہوا؟ مطلب یہ ہوا کہ دلیل نہ ہونے کے سبب آپ حریف کو ذلیل کرنے پہ اتر آئے ہیں۔ ابلاغ کا پہلو جب تک بالغ نہ ہوجائے اسے بغل میں ہی دبا کر رکھنا چاہیئے۔ دلیل پہ مقدمہ استوار نہ کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان کسی مناسب سے غیر ملکی ریستوران میں بیرا لگ جائے۔

ایک تحریر دکھائی پڑ گئی۔ مستزاد یہ کہ ”ہم سب‘ پر دکھائی پڑگئی۔ بزرگ ہیں۔ سینڈل ہاتھ میں ہے اور جامعہ بنوریہ سائٹ کے رئیس مفتی محمد نعیم نشانے پہ ہیں۔ ہم رکے اس لئے کہ ابتدایئے میں منور ظریف ، ننھا اور لہری جیسے حسنِ ظرافت کے بلند مینار دکھائی دیئے۔ بات مولویانِ کرام پہ اور خاص طور سے مفتی نعیم صاحب پہ گئی تو ماحول لاہور کے کسی پھٹیچر سے تھیٹر کا سا بن گیا۔ وہ تھیٹر جہاں مذاق کیا نہیں جاتا بلکہ مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اب تو خیر سے عمر شریف صاحب نے مذاق اڑانے کو بھی ایک آرٹ بنا کے رکھ دیا ہے، مگر یہ الزام تراشی اور بے تحقیق نسبتیں چہ معنی دارد؟ بزرگ عالی مقام نے مقدمہ باندھتے ہوئے فرمایا کہ کچھ عرصہ قبل سعودیہ کے ایک مفتی صاحب نے فتوی دیا تھا کہ ٹماٹر کرسچن ہے۔ سبحان اللہ۔ اب یہ فتوی مجھ جیسے طالب علم کو کہاں ملے گا؟ مجھے کون بتائے گا کہ یہ فتوی کس ہستی نے دیا تھا؟ اگر قلم بدست بزرگوں نے بھی سماجی ذرائع ابلاغ کی افواہوں پہ ہم طفلانِ مکتب کی رہنمائی فرمانی ہے، تو آج ہی بتلا دیجئے تاکہ کسی ایسی سرنگ میں پناہ لے لیں جہاں آگہی کی یہ معتبر اذیتیں نہ پہنچتی ہوں۔ بزرگ عالی مقام نے سعودیہ کے جس مفتی اور فتوے کا ذکر کیا وہ میری نظر سے بھی گزرا، مگر اس کا عنوان ہی یہ بتلانے کو کافی ہوگیا تھا کہ فتوی کس قدر مستند ہے۔ ہم جانتے بھی ہیں کہ سوشل میڈیا پہ قائم افواہ ساز فیکٹریوں سے کیسا کیسا منجن تیار ہوکر آرہا ہے، پھر بھی ہم تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کرتے؟

چلیئے یہ تو سعودیہ کے کسی مفتی صاحب کی بات تھی۔ محلہ بھی دور اور کوڑی بھی دور کی۔ کون تحقیق کرے اور کہاں تک کرے۔ مفتی نعیم صاحب تو یہ رہے پچھلی گلی میں مکان کئے بیٹھے ہیں۔ ان کی نسبت سے کئی جعلی فتوے سماجی ذرائع ابلاغ پہ زیر گردش ہیں۔ فتوے سے اترا ہوا ایک گرم گرم فتوی بزرگ عالی مقام کے ہاتھ لگا، تپش کی تاب نہ لائے تو عجلت میں شاید ’ہم سب‘ کی میز پہ پھینک دیا۔ فتوے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ عورتوں کیلئے اونچی ایڑھی والی سینڈل پہننا حرام ہے۔ فتوے کی ذیلی شق یہ ہے کہ خواتین اونچی ایڑھی والی سینڈل مردوں سے اونچا دکھائی دینے کیلئے پہنتی ہیں۔ استد لال یہ ہے کہ چونکہ عورت کا مقام خدا نے کمتر رکھا ہے تو خود کو برتر باور کروانے کوشش دراصل تخلیقِ باری تعالی میں انگشت درازی کے زمرے میں آئے گا۔ حرمت کیلئے فتوے میں ایک منطق یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ اونچی ایڑھی والی سینڈل میں چلتی خواتین کے اعضا و جوارح اٹکتے مٹکتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اس جعلی فتوے کے وہ حصے تھے جو سپردِ قلم کئے جا سکتے تھے۔ اس پر ایک ہلکا سا تبصرہ ہوجائے۔

یہ فتوی مجھے کہاں سے ملے گا؟ بزرگ عالی مقام نے اتنا فرمایا کہ خواتین کے حقوق پہ ایک کانفرنس ہوئی جس میں مفتی نعیم صاحب نے خطاب فرماتے ہوئے یہ سب کہا۔ مفتی صاحب بھی دل وجاں سلامت ہیں، زمانہ بھی موجود کا ہے، تو بتلا دیجیئے کہ یہ کانفرنس کب ہوئی اور کہاں ہوئی؟ پھر اتنا غیر معمولی فتوی آیا اور بھونچال نہ آیا؟ یہ کیسے ہوا؟ یعنی اسلامی نظریاتی کونسل کا ایک ٹوٹا ہوا بٹن تو میڈیا پہ دو روز تک زیر بحث رہے اور مفتی نعیم کی سینڈل میڈیا کی آنکھ سے خطا ہوگئی۔ کمال ہوگیا۔ پھر کیا فتوے کا متن، اس کا اسلوب و خیال کسی بھی درجے میں یہ سوچنے پہ مجبور کرنے کیلئے کافی نہیں تھا کہ جعلی بھی ہو سکتا ہے۔ فتوے کے متن کا حال یہ ہے کہ مدیر محترم نے اس میں سے کچھ سطروں پہ ازراہ احترام خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ مدیر محترم اول یہ بدگمانی نہیں کرسکے ہوں گے کہ بات بنا تحقیق کے کی گئی ہوگی اور پھر یہ بھی سوچا ہوگا کہ خداوندانِ مذہب اگر مدنی تکیہ ایجاد کر سکتے ہیں تو جوتے میں آفتاب کی کوئی کرن بھی لگا دی ہوگی۔ مسئلہ مگر بزرگ عالی مقام کا ہے۔

پیشوائیت کو رگیدنے کیلئے ابھی مواد کی کمی نہیں ہوئی۔ داارلافتاو¿ں سے اب بھی دم بدم صدائے کن فیکون آرہی ہے۔ ان فتووں پہ ان صداﺅں پہ گرفت ہوسکتی ہے، مگر یہ گرفت کسی منطق اور سند کی بنیاد پر ہو تو بات بنے۔ فکری اختلاف کا یہ مطلب قطعا نہیں ہوتا کہ کوئی بھی الزام گوارا کر لیا جائے۔ یہ مطلب بھی نہیں کہ حریف کی طرف جھوٹی نسبتیں کرنے والے کسی دروغ گو کی آپ حوصلہ افزائی کریں۔ حرف کا تقدس پامال کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ وزیرستان اور بلوچستان کے پہاڑوں میں مورچہ گاڑلیا جائے۔ مجھ سمیت ہر اس شخص کو اپنی دانش کا کڑا احتساب کرنا چاہیئے جو سماجی ذرائع ابلاغ پہ قائم ہونے والی افواہ ساز فیکٹریوں سے ٹوکن والا رنگ خرید کر اپنی اپنی وال پہ مل رہے ہیں۔ ستم یہ کہ پھر روشن خیالی پہ اصرار بھی کر رہے ہیں۔ قلم کی نوک میں اور سینڈل کی ایڑھی میں کچھ تو فرق روا رکھا جانا چاہیئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments