جس معرکے کے مُلاّ ہوں غازی….


 \"usmanمحترم غازی صاحب کی علمی حوالوں کے بھاری بھرکم ناموں سے بھرپور تحریر نظر نواز ہوئی تو اندازہ ہوا کہ اس کا مواد تقریبا تمام ڈاکٹر ظفراقبال صاحب کی کتاب سے ماخوذ ہے، جو اپنے طرز فکر میں رینے گینوں صاحب کے خوشہ چین ہیں. اس خادم کو تو، بہ سبب کم نگاہی، اس کتاب پر محض فتووں کی پوٹ کا گمان گزرا. رینے گینوں صاحب کی کتاب اور اس کی اردو بازگشت، عسکری صاحب کی کتاب پر اہل علم وقیع تنقید کر چکے ہیں اور ان کے طرز استدلال کی ژولیدگی اور فکری بودے پن کو کھول کھول کر نمایاں کیا ہے. پتا نہیں غازی صاحب کو اس تنقید کی خبر نہیں یا مصلحتا اس سے صرف نظر فرمایا. خیر، غازی صاحب نے بزعم خود، مغربی ’سائنسی‘ سوچ پر مغرب ہی کے جن مفکرین کی تنقید کا حوالہ دیا ہے، اگر وہ ذرا دقت نظر سے ان کا مکمل مطالعہ فرما لیتے تو پتا چل جاتا کہ ان حضرات کی تنقید کا وار، سائنس سے زیادہ عینیت پسندانہ طرز فکر پر کاری پڑتا ہے. کہیں غازی صاحب سائنس کی تنقیص کے چکر میں ایمانیات پر فوکو، ہیبرماس، ہایڈیگر وغیرہ جیسے ملحدین کی قوی تر تنقید کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کروا کر ہمارے اور اپنے لئے کسی اور ہی فتنے کا راستہ نہ کھول بیٹھیں. جیرڈ ڈائمنڈ صاحب کا تو کیا ہی کہنا، کہ ان کا طرز استدلال سو فی صد سائنسی ہے اور ان کے طے کردہ کائناتی ڈھانچے میں کسی مافوق الفطرت قوت کی کوئی گنجائش نہیں ہے.

غازی صاحب کو جدید مسلم مفکرین میں اپنے قول کے اثبات کے لئے لے دے کر دو ہی سربر آوردہ نام ملے. حسین نصر صاحب کا تو صرف نام، وہ بھی در رنگ طعنہ زنی، استعمال ہوا ہے، علامہ اقبال کا البتہ وہ مشہور مصرع ”خاص ہے ترکیب میں….“ درج کیا گیا ہے جو بجاے خود ایک بے دلیل، گر چہ بلند آہنگ دعوے کے سوا کچھ نہیں اور اس کی سیاسی تعبیر کو نقلی دلائل کا تو ہرگز سہارا میسر نہیں ہے، تفسیر بالرائے کی اور بات ہے. بہتر ہوتا کہ غازی صاحب علامہ کے اصل تجزیاتی کام ”تشکیل جدید الہیات اسلامیہ“ والے خطبات سے کوئی دلیل بہم پہنچاتے. ایک بار پھر اپنی بے علمی اور کم نظری کا اعتراف کرتا چلوں کہ دوبارہ دیکھنے پر بھی بلال غوری صاحب کے کالم میں مجھے، غازی صاحب کا بیان کردہ، ”…. اسلام پر، علمائے دین پر، اسلامی مکاتب فکر پر، اسلامی علمیت پر، اسلامی تاریخ و تہذیب اور عقائد پر حملہ….“ کہیں نظر نہیں آیا. غوری صاحب کی تنقید تو صاف صاف جاہلانہ، کہنہ پرست طرز فکر کو زبردستی عقائد کی پوشاک پہنا کر اسے اصل و اصول دین قرار دینے کا تلبیس آمیز رویہ اختیار کرنے والوں پر ہے. نجانے غازی صاحب کو اس شفاف آئینے میں کس کا چہرہ نظر آگیا کہ اسے حملہ سمجھ بیٹھے، اور وہ بھی غلط ہدف پر…. یہ پڑھ کر الحمدللہ بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ غازی صاحب انیسویں صدی کے، مغرب سے مرعوبیت کی پیداوار، ”پدرم سلطان بود“ طرز کے تمام تر سائنسی ترقی کو اپنے اسلاف کا ورثہ سمجھنے کے دعاوی سے بیزار ہیں. ماشا اللہ….

مضمون میں کافی مواد تو سائنس کی بحث سے غیر متعلق ہے مثلا یورپی اقوام کی سامراجیت اور لوٹ کھسوٹ. خادم اس حوالے سے غازی صاحب سے متفق ہے، بلکہ ہر قسم کی سامراجیت، ملک گیری، جبر اور استبداد کو غلط سمجھتا ہے چاہے اس کا ارتکاب گورا کرے یا کالا، بھلے یہ کام ننگی جارحیت کے طور پر ہو رہا ہو یا تقدیس، تہذیب، تمدن، جدیدیت کی قبیل کے خوشنما لبادے کے پیچھے…. آمدم بر سر موضوع ،غالبا اکثر دوستوں کے مانند، غازی صاحب نے بھی ”سائنسی شعبہ جات“ اور ”سائنسی طرز فکر“ کے درمیان تفاوت پر غور نہیں فرمایا. مضمون میں بیان کردہ ”سائنس“ پر اعتراضات میں سے اکثر و بیشتر اخلاقی نوعیت کے ہیں. کسی بھی سائنسی شعبے مثلا طبعیات، کیمیا، ریاضی وغیرہ کو اخلاقیات، سیاسیات، سماجیات یا غازی صاحب کی اصطلاح میں، ”اقداری نظام“ سے بحث نہیں ہے. سو مثال کے طور پر، اگر کسی طبیعات دان کی ایجاد کردہ کسی مشین سے معاشرتی و سماجی فوائد کے علاوہ فضائی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے، تو یہ مسلہ سماجیات و سیاسیات سے متعلق ہے. سو اہل معاشرہ باہمی مشورے کے بعد ماہرین سائنس کو اس کام پر لگاتے ہیں کہ وہ مذکورہ مشین کے فوائد کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے مضر ضمنی اثرات کو کم کرنے کی سبیل نکالیں. غازی صاحب نے مشاہدہ یا مطالعہ کیا ہوگا، کہ جو معاشرے ایسے فیصلے کرنے میں کامیاب رہتے ہیں (مثلا سکینڈے نیوین اور بعض دیگر یورپی ممالک، ملیشیا وغیرہ) وہاں ماہرین سائنس نے ان مسائل کے حل کی جانب خاطر خواہ پیش رفت کی ہے. جہاں بوجوہ ایسا نہیں ہے (مثلاً ہندستان ،چین، پاکستان وغیرہ) وہاں وہ ماحولیاتی مسائل درپیش ہیں جن کا رونا (اتفاقاً) مذہبی حلقوں سے زیادہ جدید مظاہر پرست (نیو ایج) کے پیرو یا جدید رومانویت پرست (ما بعد جدیدیت والے) روتے ہیں. اسی طرح یہ فیصلہ کہ جوہری توانائی سے بجلی بنائی جاے، سرطان کا علاج کیا جائے یا ہلاکت خیزہتھیار بنائے جائیں، سائنس کا نہیں، سماج اور ریاست کا دائرہ کار ہے. اس کی ممکنہ ضرر رسانی کے خدشے کے پیش نظر سرے سے کسی سائنسی شعبے پر قدغن لگانا نہ تو ممکن ہے، نہ مفید…. ”سائنسی طرز فکر“ البتہ ایک الگ موضوع ہے، جس پر غازی صاحب نے مضمون میں خاص توجہ نہیں فرمائی ، یا وہ ڈاکٹر ظفر اقبال صاحب کی کتاب کے اس سے متعلق حصوں کو پڑھ یا سمجھ نہیں پائے، سو اس پر مکالمہ کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں.

درج بالا گزارشات کا لب لباب یہ ہے کہ سائنس کو بجاے خود مطعون کرنے کا جواز غیر موجود ہے اور سائنسی ایجادات کے مضر ضمنی اثرات کا بار سماجی و سیاسی نظام پر ہے. اگر پہیہ باربرداری کی گاڑی کے بجاے جنگی رتھ کی زینت بنا ہوا ہے، تو اس میں پہیے یا اس کے موجد کا کوئی قصور نہیں بلکہ استعمال کنندہ کا ہے. ایک اور زاویے سے دیکھا جاے جاے تو علم کی ترقی کے لئے سازگار سماجی و سیاسی ماحول اہمیت رکھتا ہے. اگر سماجی اور سیاسی ڈھانچے پر بزعم خود تقدس مآب تاریک خیالی کا غلبہ ہے، تو علم آگے نہیں بڑھ پاتا بلکہ قومیں ہر لحاظ سے اقتصادی، سیاسی اور سماجی طور پر قعر مذلت میں پھسلتی چلی جاتی ہیں. اور محترم غازی صاحب کو وہ قول سدید یاد ہوگا جس میں بھوک کو ایمان کے لئے خطرہ بتایا گیا ہے. ہمارے لئے تو یہی قول سدید کافی ہے اگر چہ مضمون میں مذکور جان رالز نے اس کی مزید تشریح یوں کی ہے کہ بہترین معاشرہ وہ ہے جس میں، ہر شخص مرنے کے بعد دوبارہ بھی اسی حیثیت اور حالت میں پیدا ہونا پسند کرے جس میں وہ آج ہے. فی زمانہ موجود نظام ہائے سماجی و اقتصادی کا ایک طائرانہ جائزہ بھی بہ آسانی یہ نشان دہی کر دے گا کہ رالز کی اس تعریف سے کون سے ممالک زیادہ قریب ہیں، اور ان کے ہاں سائنسی ترقی کو کس قدر اہمیت حاصل ہے. اس کے بر عکس معاشروں کو پہچاننے کے لئے تو قیاس آرائی کی بھی ضرورت نہیں ہے، کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ جن ممالک سے لوگ بھاگ رہے ہیں، یا بھاگنا چاہتے ہیں، اور وہ ممالک جہاں وہ بھاگ کر پہنچنا چاہتے ہیں، سائنس کی ترقی کے حوالے سے علی الترتیب، کس سمت میں گام زن ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments