سیکولرازم اور مذہبی ریاست میں کیا فرق ہے ؟


 کیا سیکولر ازم کا مذہبی ریاست اورزرعی ثقافت سے ٹکراؤ ہے؟ اگر ہے تو کس بنیاد پر؟ اگر نہیں تو پھر یہ مذہبی ریاست و زرعی ثقافت سے منفرد کیسے ہوا؟ یہ وہ سوال ہے جو خاکسار سے بار بار پوچھا گیا ہے۔ سیکولر ازم کا مذہب یا ثقافت سے کوئی ٹکراﺅ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو سیکولر معاشروں میں مذہب اور سیکولرازم باہم دست و گریبان ہوتے جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ سیکولرازم کا مذہبی ریاست و زرعی ثقافت سے اختلاف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ زیر بحث آتا ہے۔ اس پورے معاملہ کو سمجھنے کے لئے آئیے تین مثالوں سے مدد لیتے ہیں۔

  1. بھارت کا ذات برادری کا نظام ( cast system ) وہاں کی اکثریت کا مذہب بھی ہے اور قدیم ثقافت بھی۔ یہ نظام سماجی سیاسی اور معاشی میدان میں تفریق قائم کرتا ہے۔ شہریت کی مساوات اور تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تصور میں یہ بڑی رکاوٹ ہے۔ بھارتی سیکولر ازم مذہب اور ثقافت کے اس نظام کو چیلنج کرتا ہے اور اسے ہٹا کر شہریت کی مساوات اور بنیادی انسانی حقوق کے تصور کو قانونی طور پر رائج کرتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ اگر بھارت میں سیکولر ازم نہ ہوتا تو غیر ہندو مذہبی اقلیتوں پر جو گزرتی سو گزرتی، وہاں کی نچلی ذاتیں جو بھگت رہی ہوتیں وہ دور جدید کے اعتبار سے نہایت المناک ہوتا۔

دوسری طرف تصور شہریت ہے۔ ایک دینیاتی (Theological ) یا سخت نظریاتی ریاست میں سب شہری برابر نہیں ہوتے۔ رجعت پسند مذہبی تشریحات ایک جغرافیہ میں بسنے والے تمام انسانوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والی موعودہ ریاست کے تصور میں مسلمان شہری ہیں جبکہ غیر مسلم ذمی۔ قانون سازی کے عمل میں غیر مسلموں کا کوئی کردار نہیں بتایا جاتا۔ مجوزہ طور پر انہیں ریاست نے تحفظ دینا ہے اور ریاست کو انہوں نے ایک مقررہ مقدار میں جزیہ۔

اسی طرح کا مسئلہ سوویت یونین میں بھی پیدا ہوا تھا جب مزدوروں کی جمہوریت قائم کی گئی تھی۔ وہ لوگ جو مزدور ہیں وہ ریاستی انتظام اور انتخابات میں حصہ لے سکتے تھے اور جو نہیں وہ شہریت کی باقاعدہ تعریف سے باہر تھے۔

ایک لبرل سیکولر سیاسی بندوبست میں شہریوں کو مذہب، نسل، رنگ، پیشہ اور زبان وغیرہ جیسی شناختوں کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ سب برابر ہیں، سب کا برابر تشخص ہے، اور سب کا ایک ہی ووٹ ہے۔ یقینا مذہبی تعبیر میں ایسی بھی تشریحات ہیں جو تمام شہریوں کو مذہبی بنیادوں پر تفریق کرنے کے بجائے انہیں مساوی حیثیت دیتی ہیں اور مذہب کو ہر فرد کا ذاتی معاملہ سمجھتی ہیں۔ اسی طرح ایسے بھی مارکسی سوشلسٹ موجود ہیں جو پیشہ کی بنیاد پر شہریت کی عدم مساوات کے قائل نہیں۔ جو بنیادی انسانی حقوق کے باب میں آپ سے اختلاف نہیں کرتا، اس سے کسی بھی لبرل کا کوئی اختلاف نہیں۔

تیسری مثال خواتین سے متعلق ایک مخصوص رویہ ہے۔ رجعت پسند مذہبی تشریحات ایک مذہبی ریاست میں خواتین کو مردوں کے مساوی درجہ دینے پر تیار نہیں۔ معاملہ صرف مذہبی تشریحات تک محدود نہیں بلکہ قدیم زرعی اقدار (جس کے جراثیم ہنوز ہماری ثقافت میں مضبوط ہیں ) میں مرد کو عورت پر برتری دی جاتی ہے۔ یہ پدر شاہی نظام بھی عورتوں کی سماجی زندگی میں شمولیت کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔

ضیا الحق کے دور میں جب ریاست کو رجعت پسند مذہبی تشریحات کے سپرد کرنے کی کوشش کی گئی تو نتیجہ میں خواتین کے سماجی زندگی میں کردار کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ تب بتایا گیا کہ عورت تو مرد سے نصف ہے، اس کی دیوانی معاملات میں مرد کی نسبت نصف گواہی ہے تو فوجداری معاملات میں وہ سرے سے گواہی کے قابل ہی نہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ قتل ہو جائے تو اس کا دیت بھی مرد کی نسبت آدھی ہے۔

اسی طرح ہر عام انتخابات میں ہمیں ایسے بہت سے حلقے ملتے ہیں جہاں خواتین کی ووٹنگ میں شرکت بہت ہی زیادہ کم ہوتی ہے، اس کا سبب بھی بنیادی طور پر ثقافتی تنگ نظری اور سماجی جبر ہے۔ ایسے کسی بھی رویے کو چاہے اس کا سبب مذہبی ہو یا ثقافتی، سیکولر ازم قطعاً قبول نہیں کرتا اور اسے ہٹا کر شہریت کی غیر مشروط مساوات کو رائج کرنے کے لیے یکسو ہوتا ہے۔

ان تین مثالوں سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ مذہبی ریاست یا زرعی ثقافت سے بعض سماجی و سیاسی امور میں سیکولر ازم کا اختلاف الحادی، الہیاتی یا دوسرے لفظوں میں دینیاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق سے ناگزیر تعلق کی وجہ سے ہے۔ لبرل ازم کی بنیاد ہی بنیادی انسانی حقوق ہیں جس کی غیر مشروط پاسداری کے بغیر نہ لبرل ازم قائم ہو سکتا اور نہ ہی اس کی ذیلی شاخیں جیسے سیکولر ازم، تنوع پسندی،جمہوریت، انفرادیت پسندی اور فری مارکیٹ معیشت۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments