استاد سے زیادہ گینڈے کی عزت کریں


یہ کہانی ایک گینڈے کی ہے لیکن تھوڑا صبر کریں پہلے ایک واردات سنیں۔ دوستوں کے ساتھ ایک ویڈیو ریکارڈنگ کے لئے بطور شامل باجہ یعنی فالتو کردار ایک افغان مہاجر کیمپ جانا ہوا۔ یہ کیمپ شلمان میں تھا جو خیبر ایجنسی میں ایک پیاری سی جگہ ہے۔ خیر وہاں بوریت دور کرنے کو اٹھا اور ٹہلتا ہوا افغان بچوں کی ایک بڑے ٹینٹ میں جا گھسا۔ وہاں چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے بچوں کی کلاس جاری تھی۔

ہرگز اندازہ نہ ہوا کہ میرے پیچھے ہی ایک ایک گوری بزرگ افسر اور اس کا ماتحت وغیرہ بھی آ گئے تھے۔ استاد کو بریک لگ گئی کلاس اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ ہمارے احترام میں گوری نے آگے بڑھ کر کچھ بچوں سے جپھی وغیرہ بھی ڈالی۔ استاد کو انگریزی نہیں آتی تھی۔ گوری کے دل میں آئی کہ بچوں سے کوئی سوال پوچھا جائے تو اس نے کہا کہ میں سوال پوچھوں۔ بہت سادہ سا سوال پوچھا کہ بچو کسی درندے کا نام بتاؤ۔

بچوں کو سمجھ نہ آئی تو استاد نے ان کو سمجھایا کہ نام یک درندہ بگو؟ کسی خطرناک جانور کا نام بتاؤ بچے گونگلو بنے بیٹھے رہے تو استاد نے ایک ہوشیار گل کو کھڑا کر لیا کہ تم بتاؤ۔ ہوشیار گل کو استاد نے دری زبان میں درندے کے بارے میں ساری خصوصیات بتائیں ، اشارے کئے۔ یہ تک کہا کہ بہت خوفناک ہوتا ہے ، چیر پھاڑ کے رکھ دیتا ہے وغیرہ وغیرہ تو ایں چی است۔ ہوشیار گل نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا کہ ’معلم است‘۔

ہمارا یار وقار ملک ہوتا تو جواب سنتے ہی وہیں لیٹ کر ایڑیاں رگڑتا اور آنکھیں مل مل کر روتا لیکن یہ واردات وسی بابے کے سامنے ہوئی تھی۔ اس کا یہ سننا کدھر تھا بس آپ یہ سمجھیں کہ شیطان نے اس کے کان میں پھونک ہی ماری تھی اور وسی بابے نے سوال کے ساتھ جواب بھی گوری کو ترجمہ کر دیا یعنی شیطانی کر دی کہ بچہ کہہ رہا ہے کہ خطرناک ترین درندہ معلم است یعنی استاد ہی سب سے بڑا درندہ ہوتا ہے۔ بس پھر گوری نے وہ بھنگڑے ڈالے کہ سارے کیمپ میں استاد کی اور انتظامیہ کی بلے بلے ہوتی سنائی بھی دے رہی تھی، دکھائی بھی دے رہی تھی۔

ایک بار پنڈ جاتے ہوئے ایک گاؤں کے پاس سے گزرا تو گونگلو بچے درخت کے نیچے بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ وہاں رک گیا۔ استاد سے باتیں کیں ۔ بچوں سے سوال جواب کئے۔ کیا پوچھا ؟ سب بھول گیا۔ یاد رہا تو بس اتنا کہ ایک بچے سے پوچھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا نام بتاؤ تو اس نے جواب دیا کہ لوہاراں والی کھوئی۔ مرد بچہ تھا جب اس نے کہہ دیا تو ایک دن لوہاراں والی کھوئی پاکستان کا سب سے بڑا شہر بن ہی جائے گی۔

اب ہو جائے گینڈے کی کہانی جس کی میں بہت عزت کرتا ہوں اور اب آپ بھی کیا کریںگے۔ گینڈے سے براہ راست ملاقات نہ ہونے کے سبب اس کو اب تک معلوم نہیں ہے کہ وسی بابا اس کے بارے کتنے خوشگوار خیالات رکھتا ہے۔ ہوا یوں کہ پھر ایک سکول ہی تھا سندھ کا جہاں پتہ نہیں کیوں میں جا گھسا تھا۔ وہ ایک لڑکی تھی چھوٹی سی جس سے پوچھا تھا کہ خدا کی عطا کی ہوئی کوئی ایک نعمت بتاﺅ تو اس نے جواب دیا کہ گینڈا۔

سب بھول گیا، گینڈا تھا، اس کی دوڑیں تھی، اپنے اکلوتے سینگ پر وہ ساری سوچ اٹھائے سر میں دوڑ رہا تھا۔ پریشان تھا کہ خدا کی اس نعمت کا ہمیں معلوم ہی نہ تھا اب تک۔ تنہائی میں خدا سے بھی گلے کئے کہ جہاں اتنی نعمتوں کا کسی نہ کسی طرح ہمیں بتا دیا ، گینڈے کے بارے میں کیوں بے خبر رکھا۔
بہت سوچا سمجھ آئی تو بس اتنی کہ استاد کو گولی ماریں، گینڈے کی بس عزت کرنی چاہئے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments