کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی پنجاب یونیورسٹی میں پٹائی


\"adnan

کئی بلوچ دوست اس بات پر پریشانی ظاہر کر رہے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں چند بلوچ طلبہ کی پٹائی لاہوری قلندروں نے کر دی ہے۔ ہمیں نہ تو کرکٹ کا علم ہے، نہ بلوچستان کا، نہ پنجاب یونیورسٹی کا اور نہ ہی قلندروں کا۔ اس لئے قطعی لاعلمی کی حالت میں ہم غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کی اہلیت کی شرط پوری کرتے ہیں اور سنی سنائی باتوں پر فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ مبصر اور منصف کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔

تو جو اطلاعات ہم تک پہنچی ہیں، ان کے مطابق صوبائی عصبیت پھیلانے کے لئے کرکٹ بورڈ نے مختلف صوبوں کی ٹیمیں بنا کر ان کو آپس میں لڑانا شروع کر دیا ہے۔ سب سے زیادہ دھلائی لاہور کے قلندروں کی ہوئی جو کہ قلندر ہونے کی حیثیت سے ان کا حق ہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹر اور پشاور زلمی نامی ٹیموں نے بقیہ تمام ملک کو پریشان کر رکھا ہے۔

ایسے میں چند بلوچ طلبہ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اپنے کمرے میں موجود تھے۔ یاد رہے کہ پنجاب حکومت نے اپنے تعلیمی اداروں میں بلوچستان کا خاص کوٹہ مقرر کر رکھا ہے۔ اب ایک تو یہ بلوچ ایک تو ویسے ہی طبیعت کے شرپسند سے ہوتے ہیں اور کسی کے رعب میں نہیں آتے۔ اوپر سے ان کو خدا نے ہدایت بھی نہیں بخشی ہے کہ وہ جماعت اسلامی سے متاثر ہو جائیں۔ اس وجہ سے یہ محب وطن اسلام پسند پاکستانیوں کے لئے کافی پریشانی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔

\"baloch-3\"

تو ہوا یوں کہ ٹورنامنٹ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر کی ٹیم نے لاہور قلندر کا بندر بنانے کا عملی مظاہرہ کیا تو چند بلوچ طلبہ نے جیت کی خوشی میں موسیقی چلا دی۔ اب دیکھیں، ایک تو قلندروں کی ہار کا غم، اوپر سے جشن موسیقی۔ یعنی بس ہر طرف سے ظلم ہی ظلم تھا۔ اس پر 1960 کی دہائی سے پاکستان کی نظریاتی اساس کے محافظ بنے چند طلبہ نے ان کو نرمی سے سمجھایا کہ دیکھو بھائیو، یہ سب نہ کرو۔ یہ حرام ہے۔

بلوچ طلبہ نہیں مانے۔ بس یہ کر دیا کہ موسیقی کی آواز کچھ کم کرنے پر تیار ہو گئے لیکن موسیقی چلا کر کوئٹہ گلیڈی ایٹر کی فتوحات کا جشن منانے سے توبہ نہیں کی۔ ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی  ہے کہ یہ موسیقی چودہ فروری کو چلائی گئی تھی اور اس کے شعلے سولہ فروری کو بھڑک اتھے۔ بہرحال  اس فعل قبیح  پر ان محافظ طلبہ نے، جو کسی مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ نام کی تنظیم کے رکن بتائے جاتے ہیں، ان کو نرمی سے سمجھایا کہ دیکھو بھائی، یہ سب موسیقی وغیرہ قلب کو سیاہ کر دیتی ہے۔ اسے بند کر دو۔ بلکہ کوئٹہ گلیڈی ایٹر کی جیت کی خوشی میں ان سو کے قریب محافظ طلبہ نے جوش و خروش سے ہوا میں ڈنڈے بھی لہرائے اور پشتون روایات کے مطابق فائرنگ بھی کی جو کہ کسی بھی خوشی کے موقعے پر کی جاتی ہے۔ حرام ہے جو ان محافظ طلبہ نے ان موسیقاروں کو ہاتھ بھی لگایا ہو۔ وہ بلوچ طلبہ تو شرپسندی پر اترے ہوئے تھے، بس لڑنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔ اس مضحکہ خیز بات کو بنیاد بنا کر لڑنے لگے کہ تم ہمارے کمرے کو نذر آتش کیوں کر رہے ہو۔ بھلا یہ بھی کوئی لڑنے کی بات ہے؟ بھلا ان بلوچ طلبہ کو محافظ طلبہ نے ہاتھ بھی لگایا تھا جو وہ لڑنے مرنے پر اتر آئے، بس کمرے کو آگ ہی تو لگا رہے تھے۔

اور پھر وہ بلوچ طلبہ یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ان کو ڈنڈوں سے مارا گیا ہے اور پستولیں دکھا دکھا کر دہشت پھیلائی گئی ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ ایک نہایت ہی پر امن تنظیم ہے جس کا نام پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے کسی لڑائی جھگڑے میں آج تک نہیں لیا گیا ہے۔ یہ تو میٹھے میٹھے مدنی بھائیوں سے بھی زیادہ میٹھی جماعت ہے اور محض اس لئے قائم کی گئی ہے کہ مستحق طلبہ کو مفت میں اخلاقیات اور دیگر اسباق پڑھا سکے، خواہ اس کے لئےتشدد بھی کیوں نہ

\"baloch-1\"

  کرنا پڑے۔

وہ تو شکر ہے کہ مبینہ اسلامی جمیت طلبہ بلوچستان نے فوراً پنجاب یونیورسٹی واقع کوئٹہ میں ہونے والے اس واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے بتا دیا ہے کہ یہ جھگڑا کرکٹ میچ پر دو گروہوں کے درمیان ہوا تھا اور اس میں مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کو نہ تو ملوث کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جمعیت کے کارکنان کا ایسی سرگرمیوں سے کوئی تعلق ہے۔ بلکہ مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات جناب امجد بخاری صاحب نے وضاحت بھی کر دی ہے کہ مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کا اس واقعے سے ہرگز بھی کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ شرپسند پشتون اور بلوچ طلبہ آپس میں ہی لڑ مرے ہیں۔ کچھ دوسرے طلبہ نے بھی جو کہ مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کے مبینہ ہمدرد ہیں، یہ وضاحت کی ہے کہ انہوں نے مار پٹائی میچ کی وجہ سے نہیں کی تھی بلکہ ویلنٹائن ڈے پر موسیقی چلانے کی وجہ سے کی تھی جو کہ اس دن کے تقدس کو پائمال کرنے والی بات ہے۔ خاکسار ان بلوچ طلبہ کی جہالت پر حیران ہے جو چودہ فروری کی بجائے سولہ فروری کو ویلنٹائن ڈے پر موسیقی چلا رہے تھے۔

ادھر پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ بھی مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کو بدنام کرنے کی مہم میں شریک ہو گئی ہے۔ اس نے غالباً کیمرہ ٹرک اور جدید ترین سپیشل افیکٹس کی مدد سے بنائی گئی جعلی سیکیورٹی کیمرہ فوٹیج کی مدد سے تیس کے قریب طلبہ کی شناخت کرنے کا دعوی کیا ہے اور بہتان لگایا ہے کہ ان کا تعلق مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ سے ہے اور انہوں نے بلوچ طلبہ کو مارا پیٹا ہے۔

ہم امجد بخاری صاحب سے کلی طور پر متفق ہیں۔ یہ کرکٹ کا کھیل ہی یہود و نصاری کی ایک سازش ہے جو مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کو بدنام کرنے کی خاطر تیار کی گئی ہے۔ چند دن پہلے اسی غیر اسلامی کھیل کے نام پر دجالی میڈیا نے کراچی یونیورسٹی میں بھی مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کو بدنام کر دیا تھا جس پر کراچی کے ناظم کو بیان دے کر وضاحت کرنی پڑی تھی کہ مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کرکٹ اور بیڈمنٹن کی اتنی بڑی حامی ہے کہ طلبہ و طالبات کے میچ خود بھی کراتی رہتی ہے۔

ادھر ان شرپسند بلوچ طلبہ نے پنجاب یونیورسٹی میں بلاوجہ کے جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں وہ چند نیک اور پابند صوم و صلوۃ طلبہ پر بہتان لگا کر ان کو حملے اور مار پٹائی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ یہ بری بات ہے۔ کسی نیک شخص کی ریپوٹیشن اس طرح خراب کرنا بری بات ہے۔ اتنا ہی بڑا مسئلہ تھا تو اس طرح کھلے عام پنجاب یونیورسٹی اور مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کو بدنام کرنے کی بجائے دو بالٹی پانی ڈال کر کمرے میں لگی آگ بجھا لینا اور پھر ایک بالٹی پانی پی کر اپنے دل کو ٹھنڈا کر کے صبر کرنا مناسب امر تھا۔ اللہ صبر کرنے

\"siraj-tony2\"

والوں کے ساتھ ہے۔

سنا ہے کہ مبینہ جماعت اسلامی کے مبینہ امیر جناب سراج الحق صاحب کو جب مبینہ طور پر یہ خبر ملی کہ مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کے چند مبینہ اراکین نے بلوچ طلبہ پر حملہ کر دیا ہے تو وہ حیرت سے ششدر رہ گئے کہ یہ دجالی میڈیا کیسی بے بنیاد خبریں پھیلا رہا ہے اور چند نیک لڑکوں کو بدنام کر رہا ہے۔ امید ہے کہ وہ جلد ہی وضاحت کر دیں گے کہ مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کا مبینہ جماعت اسلامی سے ہرگز بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہمارے قارئین یہ بھی خوب ذہن نشین کر لیں کہ مبینہ اسلامی جمعیت طلبہ کا مبینہ جماعت اسلامی سے ہرگز بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ نام نہاد طلبہ تنظیم پیپلز پارٹی سے نظریاتی وابستگی رکھتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ حسین حقانی نامی ایک شخص جو کہ کراچی یونیورسٹی میں  اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلی کے اعلی منصب پر فائز رہ چکا ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کا اتنا قریبی ساتھی ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں اسے امریکہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا جا چکا ہے۔

اپ ڈیٹ: پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان خرم شہزاد صاحب نے بتایا ہے کہ یونیورسٹی نے تیس طلبہ کو یونیورسٹی سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان میں  سے غالب اکثریت ایک میبنہ طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ہے اور چند ایک بلوچ کونسل اور پختون ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ موومنٹ  سے متعلق ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
11 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments