سیکولرازم اور’مسلمانی‘ غلط فہمیاں


\"Israrسیکولرازم کا سادہ سا مفہوم ہے۔ مذہب تمہارا ذاتی شوق، مشغلہ، شغل تو ہوسکتا ہے مگر اتنی’سیریس‘ چیز نہیں کہ ریاستی اہم معاملات میں اسے عمل دخل کی اجازت دی جائے بلکہ سیکولرازم کی نصیحت،مشورہ یہی ہو گا کہ ذاتی زندگی میں بھی مذہب جیسی’توہم پرستانہ‘ چیز جتنی کم رہے اتنا ہی اچھا ہے تو پھر سیکولرازم سے سوال ہوا نظام ریاست کیسے چلایا جائے؟ تو اس کا جواب ملا جمہوریت سے۔

جمہوریت کے قانون،پالیسیاں بنانے کے طریقوں میں کہیں بھی ماخذ مذہب نہیں۔کوئی دیوانہ شراب کو بیچنے پر پابندی لگوانے کا بل لے آئے مذہبی حوالے کے ساتھ تو نمائندہ جمہور کے ووٹوں کی تعداد اس کا وہی حشر کرے گی جو حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ میں ہو چکا ہے-نمائندوں نے اسے معیشت کو برباد کرنے کی سازش کہہ کر کوڑے دان میں پھینک دیا- اس بل کا حوالہ قرآن ،سنت تھا یا بائبل یہ سرے سے غیراہم سوال ہے-ان معصوموں کی سادگی پر صرف ہنسا جاسکتا ہے جو لوگ عمرؓ, علیؓ سے سیکولرازم ،جمہوریت ثابت کرنے میں لگے ہیں یا تو وہ بہت سادہ ہیں یا بہت چالاک۔ وہ تو اس سے بھی بڑے لطیفے ہیں جو سیکولرازم کی کامیابی کو مولانا مدنی کے نظریے کی کامیابی بتا رہے ہیں مولانا مدنی نہ ہوا جارج ہالیوک ہو گیا۔ مزید آگے آئیں سیکولرازم کسی کے لیے لاشعوری الحاد ہے اور کسی کے لیے شعوری -گو کہ سیکولرازم مکمل الحاد نہیں لیکن آدھے الحاد سے پورے الحاد کا سفر ضرور ہے۔اگر کل کو ساری کی ساری دنیا مکمل سیکولر / ملحد ہو جائے تو یہ بھی عین ممکن ہے بلکہ یہی اس سفر کی منزل ہے ۔سیکولر ازم کا بنیادی عقیدہ یہی تھا کہ پرسنل خدا رکھو نہ رکھو تمہاری مرضی ہے مگر اجتماعی خدا کوئی نہیں ہو گا۔ یعنی آدھا الحاد۔ اب پرسنل خدا رکھنے کا مسئلہ یہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں جگہ جگہ اس کا حوالہ آجاتا ہے اب اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پرسنل خدا کو بھی کھڈے لائن لگا دیا جائے ،مغرب اب اسی چکر میں ہے جو کہ سیکولرزم کا فطری سفر اور ارتقا ہے۔اسی لیے کوئی کسی بھی قسم کی کتاب لکھتا ہے کہ ’خدا نہیں ہے‘ یا ’ایمان کا اختتام’ یا’مذاہب کا اختتام‘ یا ’شیطانی ورسس‘ قسم کی تو اسے میڈیا بہت پروجیکشن دیتا ہے اور بیسٹ سیلر بنا کر چھوڑتا ہے۔یہ پروجیکشن اتفاقیہ نہیں اسی منزل کی طرف سفر ہے۔- اب یہاں سے کیمرا گھما کر پاکستان کی طرف موڑ دیں-یہاں ہمارا سفر آدھے الحاد تک پہنچا ہے – ابھی یہ طے پارہا ہے کہ اجتماعی معاملات میں خدا نہیں ہونا چاہیے۔ پریکٹیکلی تو یہ ہو چکا ہے اب اسے ڈیکلیئر بھی کروانے پر زور ہے۔اسی سین میں آپ کو غامدی میڈیا پر نظر آجائے گا جو دین کو اجتماعی معاملات سے باہر نکالنے کی دعوت دے رہا ہے -آپ کو مذہبی، سیاسی’دانشوروں’ کا ایک جم غفیر بھی اسی طرف بلاتا نظر آتا ہے۔

ہمارا’ارتقا‘ ابھی یہاں تک پہنچا ہے-آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments