کچھ تعلیم اور اساتذہ کے بارے میں


\"12312186_1001314813252392_1647510919_nبرادرم حافظ محمد ساجد صاحب نے آج ایک پوسٹ میں اپنے علاقے کے ایک گرلز سکول کا نوحہ لکھا ہے جو آغاز سے پہلے ہی بند پڑا ہوا ہے۔صرف اسی پہ ہی کیا مستزادذرا پورے ملک کے تعلیمی نظام پہ بھی ایک نظر ہو۔ حکومت کی ترجیحات میں کبھی تعلیم رہی ہی نہیں۔اگر ہم گذشتہ پچاس سالوں کا جائزہ لیں تو بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ تعلیم کو قومی پیداوار کا محض 2 یا 3 فیصد ہی دیا جاتا رہا ہے۔اور اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد تو وفاق تعلیم کی ذمہ داری صوبوں پہ ڈال کر بری ہو چکا ہے۔حکومت کی تعلیم میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ2001 سے اب تک تعلیم کے لیے جو رقوم مختص ہوئیں وہ بتاتے بھی شرم آتی ہے کہ ان کی شرح 1.82 سے 2.42 کے درمیان رہی جوکہ ہمسایہ ممالک کی نسبت کم ترین شرح تھی۔تعلیم کے شعبے میں 2015 میں صوبوں کے تقابلی بجٹ کا بھی سنیں اور سر دھنیں۔سب سے بڑا حصہ پنجاب کو ملا جو کہ 310 ارب تھا، پھر سندھ 144.7
کے ساتھ دوسرے نمبر پہ رہا،خیبر پختونخوا کو 97.5 اور بلوچستان کو 38.5 ارب روپیہ ملا۔ تعلیم کا شعبہ چلانے کے لیے 2009 کی قومی تعلیمی پالیسی پہ عمل بالکل بھی نہیں کیا گیا بلکہ
یہاں بھی افسر شاہی کا راج نظر آتا ہے۔گذشتہ 6 برسوں میں صوبوں کے وزرائے تعلیم کا کوئی مشترکہ اجلاس بھی نہیں ہوسکا۔یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے صدر مملکت کی زیر صدارت ریسرچ کمیٹی کا اجلاس ہونا بھی لازم تھا جو آج تک نہیں ہو سکا۔اردو یونیورسٹی جوکہ براہ راست صدر صاحب کی ماتحتی میں ہے اس کا احوال کسی سے ڈھکا چھپا
نہیں۔اسی طرح ڈاو¿ میڈیکل یونیورسٹی کے چانسلر کی تقرری کے لیے وزیر اعلیٰ اور گورنر میں چپقلش بھی سامنے کی بات ہے۔انہی کوتاہیوں اور بد دیانتیوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی کا دنیا کی 500 بہترین یونیورسٹیوں میں نہیں آسکا کیونکہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے یونیورسٹیز تحقیقی میدان میں صفر ہو چکی ہیں۔تمام یونیورسٹیز کے سنڈیکیٹ میں سرکاری نمائندوں کی شمولیت نے اس گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا دے دیا ہے۔یہ تو صرف چند مثالیں ہیں ورنہ کسی بھی ادارے کو دیکھ لیجیے۔سب کا اب اللہ ہی حافظ ہے۔ اب ذرا ایک نظر دو بڑے سٹیک ہولڈرز پہ یعنی اساتذہ اور طلبا۔
ملک بھرمیں پرائمری سے ہائر سیکنڈری سطح تک کے سکولوں کی تعداد153941 ہے۔ خواتین اساتذہ کی تعداد 283852 اور مرد اساتذہ کی تعداد 406422 ہے اور ان سکولوں میں زیر تعلیم لڑکیوں کی تعداد 52822 اور لڑکوں کی تعداد 98638 ہے جبکہ استعداد کا جائزہ لیں تو ان سکولوں میں پڑھنے والے طلبا میں سے 47فیصد اردو کی ایک کہانی تک نہیں پڑھ سکتے۔51فیصد کے لیے انگریزی کا ایک جملہ پڑھنا کار دارد ہے۔ 53فیصد طلبا ایسے ہیں جو دو رقمی تقسیم سے نابلد ہیںجبکہ انتہائی سنگین مسئلہ ڈراپ آو¿ٹ(بچوں کا سکول چھوڑ جانا ہے اور یہ رحجان پرائمری سطح پہ لڑکیوں میں بہت زیادہ ہے یعنی اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ داخل ہونے والی 25 میں سے 13 لڑکیاں سکول چھوڑ جاتی ہیں جو کہ بہت تشویش ناک ہے۔ اگرچہ پرائمری سطح تک تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے مگر غربت،چائلڈ لیبر اور دیگر معاشرتی ناہمواریوں کی وجہ سے100فیصد داخلہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
اب ذرا اساتذہ کا حال دیکھ لیجیے ۔ ملک میں گھوسٹ اساتذہ کی بھرمار ہو چکی ہے۔ یہ اساتذہ ہر ماہ کی یکم تاریخ کو نظر آتے ہیں اور پھر غائب۔ اصل میں یہ اساتذہ ایک باعزت زندگی گزارنے کے لیے دوسرے کاروبار اختیار کرنے پہ مجبور ہیں اس میں بھی سراسر حکومت کا قصور ہے کہ اس نے آج تک اساتذہ کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کیا جبکہ دوسری طرف حال یہ ہے کہ حکومت کے انتظام و انصرام چلانے کے لیے کلرکس کی اپ گریڈیشن کا نوٹیفیکیشن آج ہی جاری ہوا ہے۔جس کے مطابق جونئیر کلرک کو گریڈ 7 سے گریڈ11 میں اپ گرڈ کیا گیا ہے جو کہ ایک مستحسن عمل ہے اور یہ بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا ۔خیر دیر آید درست آید۔ مگر حضور والا ذرا سوچئے کہ ایک پرائمری سکول ٹیچرجس کی کوالی فکیشن بی اے۔بی ایڈ ہے اس کا گریڈ تو 9 ہو جبکہ ایک میٹرک پاس کلرک کا گریڈ 11 ہو تو معاشرے میں عدم استحکام تو بڑھے گا ہی۔ مگر شاید حکومت سے گلہ کرنا جائز نہیں کہ حکومت کی دلچسپی اس شعبے میں ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ذرا سوچئے کہ جس ملک کے پارلیمنٹرین ایک سورة تک کی تلاوت نہ کر سکیں اس کا کیا حال ہوگا۔ بڑے افسوس سے یہ بھی کہتا چلوں کہ یہ اس قوم کا حال ہے جس کی ابتدا اقرا سے ہوئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments