بام حرم کے کبوتر اور حب وطن کی زنجیر


\"wajahat\" 9مارچ 1951 ءکے اخبارات میں راولپنڈی سازش کیس کی خبر چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی۔ قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے…. یہ خبر آفات ناگہانی کا اشارہ تھی۔ وطن سے محبت آزادی کے پہلے روز ہی سے ایک بیوپار کا درجہ اختیار کر چکی تھی اور یہاں تو وزیراعظم لیاقت علی خاں نے باقاعدہ ایک سازش کا انکشاف کیا تھا ۔ چنانچہ اخبار کے صفحے پر غداری کی دہائی دینے والوں کی بن آئی۔ درجنوں اداریے تو اس مضمون کے شائع ہوئے کہ سازش کے ملزمان کو پھانسی دی جائے۔ امروز کے چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض گرفتارافراد میں شامل تھے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد فیض صاحب کے نیازمند ہی نہیں تھے، گہرے تعلق خاطر کا معاملہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی بہنوں سمیت فیض صاحب کے گھرانے کے ساتھ ایک ہی عمارت میں قیام پذیر تھے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی تھی مگر وضع داری کے تقاضے سمجھتے تھے ۔ دہشت کا یہ عالم تھا کہ دوستی کا دعویٰ رکھنے والوں کو اس کوچے میں قدم رکھنے سے گریز تھا جہاں امروز کا دفتر واقع تھا۔ ڈاکٹر آفتاب شام ڈھلے ازرہ ہمدردی امروز کے دفتر پہنچے۔ مولانا چراغ حسن حسرت کے قریب بیٹھ گئے۔ چراغ حسن حسرت علم اوروضع داری کے جملہ پہلوﺅں کو دو مصرعوں کی تنگنائے میں سمیٹنے کی صلاحیت فراواں رکھتے تھے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد کو دیکھا تو رندھے ہوئے لہجے میں شعر پڑھا۔

تو اے کبوتر بام حرم چہ می دانی
طپیدن دل مرغان رشتہ درپارا

حرم کی منڈیروں پر اڑانے بھرنے والے اے خوش نما کبوتر، تجھے کیا خبر کہ ان پرندوں پر کیا گزرتی ہے جن کے پیررشتے کی زنجیر سے بندھے ہوتے ہیں۔ مولانا حسرت نے فیض کی وطن سے محبت ، ڈاکٹر آفتاب احمد کی سرکاری ملازمت اور خود پہ ٹوٹنے والی مصیبت کو شعر کی تنگنائے میں سمو دیا تھا۔فیض صاحب نے تو کئی مہینے بعد لکھا کہ ’وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا ‘۔ فیض احمد فیض کی ذات کے چشمے میں گیان اور ہنر کی بہت سی ندیاں آکے گرتی تھیں۔کہنا تو صرف یہ تھا کہ کہاں کی سازش ، کہاں کی حب الوطنی اور کیسی غداری۔ یہ تو کھیل ہی کچھ اور تھا۔ ہماری تاریخ میں یہ قصہ ٹھیک ساٹھ برس بعد اکتوبر 2011 ءمیں دہرایا گیا۔ 10 اکتوبر کوفنانشل ٹائمزمیں ایک خبر شائع ہوئی ۔ خبر دینے والا جانا پہچانا مشتبہ کردار اور خبر کے حقائق موہوم تر ۔ دس روز بعد دودھ میں دھلی ایک شخصیت اڑ کر لندن پہنچی اور اس کے ٹھیک دس روز بعد 30 اکتوبر 2011ءکی شام لاہور کے منٹو پارک میں ایک جلسہ سجایا گیا۔ سازش کا انکشاف کیا گیا۔ طوفان کھڑا ہو گیا۔ میاں نواز شریف نے سیاہ کوٹ زیب تن کیا اور انصاف کے اعلیٰ ترین ایوان میں جا پہنچے۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو ملزم نامزد کیا گیا۔ وطن واپس بلایا گیا اور طوفان کے تھپیڑے دیکھتے ہی دیکھتے شاہراہ دستور سے گزرتے ایوان صدر کی دہلیز تک جا پہنچے۔ ملک کے منتخب صدر کو ملک چھوڑ کر خلیج کی طرف مراجعت کرنا پڑی۔ حسین حقانی اہل حکم کے حضور پیشی کے لیے وطن لوٹ رہے تھے تو انہو ںنے جہاز سے ایک شعر لکھ کر ابنائے وطن کو مخاطب کیا تھا۔ مٹی کی محبت کا ذکر تھا ، اپنی آشفتہ سری کی گواہی دی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ جس قرض کی واپسی کا تقاضا کیا جا رہا ہے، وہ واجب نہیں تھا۔ گویا یہاں بھی جو بات ناگوار گزری تھی ، سارے فسانے میں اس کا ذکر نہیں تھا۔ 1951ءہو یا 2011 ء، سازش کی کہانی کچھ اور تھی ، تمثیل کے اصل کردار کچھ اور تھے اور فیصلہ تاریخ کو کرنا تھا۔ تادم تحریر تاریخ کا عبوری فیصلہ یہ ہے کہ 2012 ءکے بعد سے میمو گیٹ سکینڈل کی سماعت نہیں ہو سکی۔ ملک کے منصف اعلیٰ کا یہ بیان البتہ ریکارڈ پر آچکا کہ حسین حقانی نہ تو ملزم ہیں اور نہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ وجود رکھتاہے۔ صاحب لیکن تاریخ کا مقدمہ تو موجود ہے ۔ فیض احمد فیض ہوں یا حسین حقانی ، تاریخ اس سوال کا جواب چاہتی ہے کہ وقفے وقفے سے یہ کھیل کون رچاتا رہا ہے اور قوم کو کس محرر کی مرقومہ فرد جرم کی بنیاد پر بار بار کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے؟

تاریخ کا منظر بدلتا ہے ۔گزشتہ مہینے جنوری کی 18 تاریخ کو وزیر دفاع خواجہ آصف قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہوئے ۔ایف سولہ طیاروں کی امریکا سے خریداری کا معاملہ زیر بحث تھا ۔خواجہ صاحب نے فرمایا کہ ہندوستانی لابی پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے ساتھ مل کر پاکستان کو مطلوبہ طیاروں کی فروخت میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ خواجہ آصف ملک کی موجودہ جمہوری صفوں میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ اعلیٰ پائے کے پارلیمانی مقرر ہیں اور ان کا شمار ایسے سیاسی رہنماﺅں میں نہیں ہوتا جو وطن پر ابتلا کے دنوں میں اپنا فون بند کر کے روپوش ہو جاتے ہیں۔ خواجہ آصف دلیل کا ہنر بھی رکھتے ہیں اور ان کی آواز میں للکار کا امکان بھی بہت سے امتحان دیکھ چکا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا 2014ءکے غبار آلود دنوں میں اہل حکم کے معتوب افراد کی فہرست میں خواجہ صاحب کا نام بہت اوپر آتا تھا ۔ کبھی ان کی پرانی تقریروں سے ٹیلی ویژن کی سکرین سجائی جاتی تھی تو کبھی افواہ اڑائی جاتی تھی کہ وزیر دفاع اپنے ہی محکمے میں اذن باریابی سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ مشکل وقت تھا ۔ سیاسی ذہن ایسے مرحلوں میں توڑ پھوڑ کی بجائے لچک اور افہام و تفہیم سے کام لیتا ہے۔ خواجہ آصف نے 2014 ءکے بحران میں قوم کو مایوس نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ خواجہ آصف کو اب یہ ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ قومی مفاد کے معاملے میں اس شخص کا نام لیں جو گزشتہ پانچ برس سے کسی سرکاری منصب پر فائز نہیں ہے۔ ایک ایسا شخص جس کے دور سفارت میں پاکستان کو ایف سولہ طیارے بھی ملے تھے اور سات ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد بھی موصول ہوئی۔ حسین حقانی نئے معتوب نہیں ہیں ۔ 2009ءمیں کیری لوگر بل کا مصنف بھی حسین حقانی کو ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ وضاحت البتہ کبھی نہیں ہو سکی کہ پاکستان کے لئے بھاری امداد کی ضمانت دینے والے کیری لوگر بل میں ایسا کیا تھا جو ہماری ریاست کی بیان کردہ پالیسی سے متصادم تھا۔ سوال آج بھی یہی ہے کہ حسین حقانی نے پاکستان کی قومی ترجیحات کے بارے میں جو مو¿قف اختیار کر رکھا ہے کیا آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے حتمی مقاصد وہی نہیں ہیں۔ حسین حقانی کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کی چھٹی بڑی دفاعی قوت ہے لیکن انسانی ترقی میں پاکستان بیالیسویں درجے پر آتا ہے۔ ایک اور سات کے اس فرق کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیاسی قوتوں کو علانیہ اور غیر علانیہ ہتھکنڈوں سے نیچا دکھانے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔ دہشت گردی میں محض جان و مال کا زیاں ہی نہیں، انتہا پسندی ہماری قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ انتہا پسندی کو جڑسے ختم کرنا چاہیے۔ ہم ایک اقتصادی راہداری تعمیر کر رہے ہیں ۔ یہ شاندار معاشی منصوبہ خطے میں تعلقات کی نوعیت تبدیل کیے بغیر اپنا امکان پورا نہیں کر سکتا اور یہ کہ ہمیں دفاع سے زیادہ توجہ معیشت کو دینی چاہیے۔ حسین حقانی ایک مدت سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ فیض احمد فیض ہوں یا بے نظیر بھٹو ، میاں نواز شریف ہوں یا حسین حقانی ، جلاوطنی زبردستی مسلط کی جائے یا خود اختیار کی جائے ، اس کی بنیاد بہرصورت یہ ہوتی ہے کہ وطن عزیز میں کچھ معاملات ایسے ہیں جنہیں بیان کرنا مشکل کر دیا جاتا ہے۔ انصاف کی کچھ راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں ۔ استبداد کھلے میدان میں درشن پریڈ کرے یا پردوں کی اوٹ میں چلا جائے، آنکھیں بہرصورت آہن پوش ہو جاتی ہیں۔ آنکھ کو بصارت بھی چاہیے اور بصیرت بھی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی سوچ کے مختلف دھاروں کو احترام دیا جائے ۔ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کیا جائے اور میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق پاکستان کو ترقی اور استحکام دینے کی راہیں تلاش کی جائیں۔ اور اگر ممکن ہو تو ان شاہ سواروں کی گردن سے الزام کا پھندہ اتار دیا جائے جو وطن سے محبت کی صلیب پر جھول رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments