لیاقت علی خان کو کس نے قتل کیا؟ (تیسرا حصہ)


لیاقت علی کے قتل کی تفتیش کیسے ہوئی؟

غلام نبی پٹھان( تب جائنٹ سیکرٹری مسلم لیگ) کے مطابق لیاقت علی کے قتل کی نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ تفتیش کی گئی۔ چالان پیش کیا گیا اور نہ مقدمہ چلایا گیا۔

جسٹس منیر اور اختر حسین پر مشتمل ایک جوڈیشل انکوائری منعقد ہوئی مگر اس انکوائری کا مقصد لیاقت علی کے قاتلوں کا تعین کرنے کی بجائے قتل سے متعلقہ انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا۔ بیگم لیاقت علی کے مطابق کمیشن کا تقرر حکومت کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی تھی۔ اس کے نتیجے میں پنجاب اور سرحد کے پولیس افسر قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کی بجائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہو گئے۔

انکوائری کمیشن کے نتائج نہایت مبہم اور مضحکہ خیز حد تک بے معنی تھے۔ مثال کے طور پر :

الف) ہم بیان کردہ واقعات کی بنا پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے۔ معاملہ زیرِ تفتیش ہے۔ تحقیقات کرنے والے افسر کئی نظریات پر غور و فکر کر رہے ہیں۔

ب) اس ضمن میں تین سازشوں کا سراغ ملا ہے جن میں سے دو کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور تیسری کے متعلق مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان خط و کتابت ہو رہی ہے۔ ہم نے ان سازشوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے کیونکہ ان کا انکشاف مفاد عامہ میں نہیں ہے۔

ج) سید اکبر کا کسی سازش سے تعلق معلوم نہیں ہو سکا۔ بہرحال ایک قابل پولیس افسر مصروفِ تفتیش ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ایک یا دو سازشوں سے سید اکبر کے تعلق کا پتہ مل جائے گا۔

د) اگر سید اکبر زندہ مل جاتا تو ہمیں یقین تھا کہ ہم ایسے بھیانک جرم کے سازشیوں اس کا اتا پتا معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔

سید اکبر کی موت کے متعلق پولیس رپورٹ میں سب انسپکٹر محمد شاہ کی فائرنگ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس چشم پوشی کا مقصد پولیس کی غفلت یا ملی بھگت پر پردہ ڈالنا تھا۔

سید اکبر کون تھا ؟

سید اکبر پاکستانی شہری نہیں، بلکہ افغان تھا۔ 1944 میں برطانوی حکومت کی ایما پر افغانستان میں سیاسی گڑبڑ کی ناکام کوشش کے بعد اس کا خاندان صوبہ سرحد میں آباد ہو گیا تھا۔ اسے اور اس کے بھائی مزدک خان کو برطانوی حکومت سے وظیفہ ملتا تھا، جو پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا۔ کیا سید اکبر حکومت پاکستان کا تنخواہ دار خفیہ کارندہ تھا؟ اس نے پنڈی کے ہوٹل میں اپنا پیشہ سی آئی ڈی پنشنر لکھوایا تھا۔ صوبہ سرحد میں ایسے خفیہ معاملات کے ضمن میں سکندر مرزا کا بہت شہرہ تھا جو قبائلی علاقوں میں پولیٹکل ایجنٹ رہنے کے علاوہ پشاور کے ڈپٹی کمشنر بھی رہے تھے اور قیام پاکستان کے بعد سیکریٹری دفاع کے طاقتور عہدے تک پہنچ چکے تھے۔

سید اکبر کا ذاتی کردار بیان کرنے کے لیے تین اصطلاحات سے مدد لی جا سکتی ہے۔ یعنی سیاسی مذہبیت، جنسی اضطراب اور ضعیف العقیدہ مذہبی جنون۔ ایسا غیر متوازن شخص کسی سازش میں بہترین آلہ کار ثابت ہو سکتا ہے۔ لیاقت علی خان قتل کے بارے میں سرکاری نقطہ نظر یہی تھا کہ یہ مذہبی دیوانے اور ذہنی مریض سید اکبر کا انفرادی اقدام تھا جس میں کسی سازش کو دخل نہیں تھا۔

روزمرہ زندگی میں سید اکبر مذہبی آدمی تھا۔ پابندی سے نماز پڑھتا اور زکٰوة ادا کرتا تھا۔ اس نے شراب اور جوئے کے خلاف ایک کتاب کی کئی جلدیں خرید کر مفت تقسیم کی تھیں۔ سید اکبر قائد اعظم سے شدید عقیدت رکھتا تھا حالانکہ وہ بھی لیاقت علی خان کی طرح پردے کے قائل نہیں تھے۔ سید اکبر ہر وقت کشمیر میں جہاد اور بھارت پر حملے کے خواب دیکھتا رہتا تھا۔ اس نے اپنے گھر میں الٹے سیدھے جنگی نقشے لٹکا رکھے تھے۔ وہ ایبٹ آباد کے مولویوں سے تقاضا کیا کرتا تھا کہ وہ عوام پر جہاد کی اہمیت واضح کریں۔ 14 اکتوبر کو ایبٹ آباد سے راولپنڈی جاتے ہوئے سید اکبر نے وہی لباس پہن رکھا تھا جو اس نے جہاد میں شریک ہونے کے لیے تیار کرایا تھا۔

اس کے مکان کی تلاشی میں روزنامہ تعمیر اور نوائے وقت کے متعدد تراشے ملے جن میں بیگم لیاقت علی خان کے خلاف رسوا کن اداریے تحریر تھے۔ ان دونوں اخبارات میں وزیر اعظم اور ان کی بیوی کے خلاف گھٹیا مہم چلائی جا رہی تھی جس میں سید اکبر کو گہری دلچسپی تھی۔

دوسری طرف سید اکبر کے بھائی مرزک کے مطابق سید اکبر خود پردہ ترک کر چکا تھا۔ وہ کبھی کبھی اپنی بیوی اور بیٹے کو سینما دکھانے لے جایا کرتا تھا۔اس نے 16 اپریل 49 کو لاہور سے دو گھڑیاں خریدیں، جن میں سے ایک اس کی داشتہ رخ عافیہ کے لیے تھی۔ اس نے اپنے لڑکے دلاور خاں کو ایبٹ آباد میں ماڈرن یوروپین سکول میں تعلیم کے لیے داخل کرایا تھا۔

مرنے کے بعد سید اکبر کی جیب سے 2041 روپے برامد ہوئے۔ 450 روپیہ ماہانہ سرکاری وظیفہ پانے والے قاتل کے گھر سے7650 روپے کے نوٹ اور منی لال چمن لال اینڈ کمپنی بمبئی کی تیار کردہ نقلی سونے کی 38 اینٹیں ملیں۔

سید اکبر پر اسرار طور پر کچھ آدمیوں سے ملتا جلتا تھا۔ 14اکتوبر کو پنڈی پہنچ کر سید اکبر نے چند سوالات لکھ کر کسی سے استخارے کی درخواست کی تھی۔ قتل سے ایک روز قبل اسے تحریری جواب ملا جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا تھا کہ بہشت میں حوریں تمہاری منتظر ہیں۔ تم ہماری خوشنودی پاو¿ گے۔

ایبٹ آباد میں سی آئی ڈی کے اہل کار 3 سال سے سید اکبر کی نگرانی کر رہے تھے۔ 14 اکتوبر کو سی آئی ڈی راولپنڈی کو پیغام ملا کہ سید اکبر کی”معمولی نگرانی“ کی جائے۔وزیر اعظم کی آمد کے موقع پر ایسے مشکوک کردار کے بارے میں ان احکامات کا واضح مطلب تھا کہ کچھ لوگ سید اکبر کی پشت پناہی کر رہے تھے۔

انکوئری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، ”استخارے کا کاغذ دیکھنے اور واقعات پرکھنے سے معلوم ہوا کہ سید اکبر دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی ہوشیار شخص یا گروہ کا آلہ کار بن گیا تھا۔ یہ ماننا مشکل ہے کہ لیاقت علی سید اکبر کے مذہبی جنون کا شکار ہو گئے اور یہ کہ سید اکبر کو خدا نے وزیر اعظم کو قتل کرنے کی ہدایت کی تھی۔“

کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

سید اکبر نے ہزاروں کے مجمعے میں لیاقت علی پر گولی چلائی۔ اس کی گرفتاری سے ساری سازش کا تانا بانا سامنے آ جاتا۔ قاتل کے اردگرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر کے اس کا پستول چھین لیا تھا لیکن اسے پولیس نے موقع ہی پر مار دیا۔ دنیا بھر میں سیاسی قتل چھپانے کا یہ معروف طریقہ ہے کہ کسی شخص کو لالچ اور ترغیب کی مدد سے قتل پر آمادہ کیا جائے اور پھر جائے واردات کی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قاتل کو ختم کر دیا جائے تا کہ اصل سازش کا سراغ نہ مل سکے۔

وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے اس قتل کی تفتیش انسپکٹر جنرل پولیس اعتزاز الدین کے سپرد کی۔ اعتزاز الدین نے بیگم لیاقت علی کو بتایا تھا کہ وہ اصل مجرموں کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ 26 اگست 1952 کو وہ لیاقت علی کیس کی تحقیقات کے لیے پاکستان ائیر فورس کے طیارے میں پشاور جا رہے تھے کہ جہلم کے قریب جہاز کو آگ لگ گئی۔ اعتزاز الدین سمیت تمام مسافر ہلاک ہو گئے۔ لیاقت علی خاں کے قتل کے مقدمہ کے متعلق اہم کاغذات نذر آتش ہو گئے۔

پاکستان کے سابق کمپٹرولر جنرل مشتاق احمد وجدی کے مطابق، ”اعتزاز الدین سے جب بھی بات ہوئی تو صرف اتنا کہا کہ میاں، موت سر پر کھیل رہی ہے۔ آخر دوران سفر ہوائی جہاز کے حادثے کا شکار ہو گئے۔“

لیاقت علی خاں کے قاتل سید اکبر کو جائے واردات پر سرکاری پستول سے ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ اچانک بہت مالدار ہو گیا۔ اس نے پولیس کی ملازمت سے برطرف ہونے کے بعد لائل پور میں کپڑے کا کارخانہ لگا لیا۔ کچھ عرصے بعد ایک روز محمد شاہ کو نامعلوم افراد نے ضلع گجرات کے گاوں مدینہ میں گولی مار کر قتل کر دیا۔انسپکٹر محمد شاہ کے قتل کی خبر میں سید اکبر پر گولی چلانے کا تناظر بیان کرنے پر اعلیٰ سرکاری افسروں نے ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کو دھمکیاں دیں۔

غلام نبی پٹھان نے مغربی پاکستان کے وزیر کی حیثیت میں چیف سیکرٹری سید فدا حسن کو فون کیا کہ آپ لیاقت علی قتل کیس کی فائل میرے پاس بھیج دیں۔ فدا حسین نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ غلام نبی پٹھان کے اصرار پر جب انہیں فائل بھیجی گئی تو اس میں کوئی کاغذ نہیں تھا۔ فدا حسن کے مطابق غلام محمد کے زمانے میں مشتاق گورمانی (گورنر مغربی پاکستان )نے یہ فائل منگوائی تھی۔ واپس آئی تو خالی تھی۔

فروری 1958 میں ازالہ حیثیت عرفی کا مشہور مقدمہ گورمانی بنام زیڈ اے سلہری لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا، ایک نکتے کی تصدیق کے لیے عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو حکم دیا کہ لیاقت علی کے قتل کے متعلق پولیس کی تفتیشی فائل عدالت کو مہیا کی جائے۔8 مارچ 1958 کو سی آئی ڈی نے عدالت کو مطلع کیا کہ تلاش کے باوجود اس فائل کا کوئی پتہ نہیں چل سکا لہٰذا حکومت اسے پیش کرنے سے معذور ہے۔

سولہ اکتوبر1951 کی شام ریڈیو پاکستان نے کمپنی باغ راولپنڈی سے وزیر اعظم لیاقت علی کی تقریر براہِ راست نشر کرنے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ریڈیو کے نشریاتی آلات سٹیج پر رکھے ایک میز پر نصب تھے۔ وزیرِ اعظم کے قتل کے بعد یہ میز الٹ گئی مگر ریکارڈنگ کا عمل جاری رہا۔ ایک منٹ اور تینتالیس سیکنڈ کی اس ریکارڈنگ میں مختلف گولیوں کی آواز اور بھگڈر کا احوال محفوظ ہو گیا۔ یہ ریکارڈنگ انکوائری کمیشن میں متعدد مواقع پر پیش کی گئی۔ ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں لیاقت علی کی بہت سی تقاریر محفوظ ہیں مگر پاکستان کے کسی ریڈیو سٹیشن پر پونے دو منٹ کی یہ اہم ریکارڈنگ موجود نہیں۔

انسپکٹر جنرل پولیس اعتزاز الدین کے بعد لیاقت علی کے قتل کی تفتیش ڈی آئی جی سرحد اے بی اعوان کے سپرد کی گئی۔ اے بی اعوان کے مطابق جب اس تفتیش کی مکمل رپورٹ محمد علی بوگرہ کو پیش کی گئی تو انہوں نے اس پر کوئی توجہ دیے بغیر نہایت بے رخی سے صرف اتنا کہا کہ حکومت اس ضمن میں سکاٹ لینڈ یارڈ کی خدمات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

محمد علی بوگرہ نے برطانوی سکاٹ لینڈ یارڈ کے ایک افسر مسٹر یورین کو لیاقت قتل کیس کی تفتیش کے لیے وزارت داخلہ میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس کا عہدہ دے کر افسر بکار خاص مقرر کیا۔ انہوں نے سات ماہ تک تحقیقات کرنے کے بعد 6 جون 1955 کو وزیر داخلہ جنرل اسکندر مرزا کو اپنی رپورٹ پیش کر دی۔ یہ رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہ آ سکی۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ریکارڈز آفیسر کے مطابق نیو اسکارٹ لینڈ یارڈ کے ریکارڈ میں لیاقت علی قتل کی انکوائری سے متعلق کوئی مواد موجود نہیں۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments