دو قومی نظریہ : اصول دین یا سیاسی داؤ؟(1)


\"usmanاندازہ ہوتا ہے کہ محترم غازی صاحب نے اس خادم کے گزشتہ مضمون کے حوالے سے اٹھائے گئے استفسارات پر اچٹتی سی نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کیا اور بدستور سبقت قلم کے جوہر دکھانے کی جانب ہی توجہ مذکور رکھی۔ اگر ان کی رائے (بلکہ ڈاکٹر ظفر اقبال کے گمان) میں گزشتہ صدی کے سب سے بڑے مفکر جان رالز کی تصانیف کو ایک نظر ہی دیکھ لینے کی زحمت فرما لیتے تو اس بے چارے کی یہودیوں کو قبول کرنے کی پالیسی کی تعریف پر ’خلافتِ عثمانیہ کے دور اور معاشرے کو دنیا کے بہترین معاشرے کے طور پر پیش‘ کرنے کی تہمت نہ لگتی۔ یوں بھی بہت سے دوست اس لا مذہب جان رالز کی نسبت ہمارے اپنے ہندوستانی کلمہ گو بھائی مولوی محبوب عالم (پیسہ اخبار والے) کی سلطنت عثمانیہ کے بارے میں منفی رائے کو زیادہ وقعت دیتے ہیں، جنہیں وہاں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات دیکھ کر انتہا درجے کی مایوسی نے گھیر لیا تھا۔ یہاں تک کہ خودکشی کا وسوسہ تک ایک موقع پر ان کا دامن گیر ہو گیا تھا۔ مائیکل مین صاحب سے اس احقر کو کسب فیض کا موقع نہیں ملا، سو اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

چند دیرینہ اشکالات غازی صاحب کی تحریر سے رفع نہ ہو پائے، سو ان کے حوالے سے ان سے رہنمائی کی درخواست ہے۔ اول تو یہ کہ حضرت مدنی، مولانا آزاد، مولانا سندھی، مفتی کفایت اللہ، مولانا احمد سعید، مفتی محمود، سید عطا اللہ شاہ بخاری وغیرہم (ر ح) کی علمی، سیاسی اور دینی بصیرت اور جدوجہد آزادی میں ان کی قربانیوں اور عزیمت کا ریکارڈ مسلمہ ہے۔ کیا سبب ہے کہ یہ \”دو قومی نظریہ\” جسے اس مضمون میں گویا دینی تقاضے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، بیسویں صدی کے آغاز سے بٹوارے تک ان حضرات پر تو اس کا انشراح نہ ہوسکا اور یہ رمز کھلی تو ولایت پلٹ بیرسٹر پر، جس کے دینی مطالعے کی ، سواے ایف ڈی ملا نامی پارسی قانون دان کی \”محمڈن سول لا اینڈ جیورسپوڈنس\” کتاب کے، کوئی شہادت موجود نہیں۔ اور ان اکابر میں سے پاکستان میں رہ جانے والے تو آخر تک اس \”گناہ\” (کذا) میں شرکت سے انکاری رہے۔ جن دینی اکابر کا مضمون میں اس نظریے کے حامیوں کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، انہوں نے بھی بیرسٹر محمد علی جناح کی اقتدا کو قبول کیا، اس نظریے کے بانی مبانی وہ ہرگز نہ تھے۔ اب ہم اس نظریے کی دینی اساس کے بارے میں نامی جید علما اور مجاہدین آزادی کی رائے کو کس بنیاد پر مسترد کریں، اور دوسری صف کے علما کی رائے پر کیوں کر صاد کریں، جن کے پاس اس کی حمایت میں نقلی نصوص کم ہیں، اور بشارات و کشوف کا بیان زیادہ۔۔۔۔ پھر جب مسلم لیگی قیادت نے \”کابینہ مشن پلان\” کو تسلیم کر کے دو قومی نظریے پر لچک دکھائی، تو اس کی حمایت کرنے والے کس عالم دین نے ”شعائر اسلامی“میں اس ترمیم کے خلاف آواز اٹھائی؟

دوم، چونکہ بات ’دو‘ قومی نظریے کی ہو رہی ہے، تو چلیے ایک لمحے کو مان لیا کہ پشتو، بلوچی، اردو، بھوج پوری، سرائیکی، کنڑ، ملیالم، کونکنی، بنگلہ، براہوی، فارسی وغیرہ بولنے والے شیعہ، دیوبندی حنفی، بریلوی حنفی، اہل حدیث، اسماعیلی، داو ¿دی بوہرہ، سلیمانی بوہرہ، (تب تک) قادیانی و لاہوری احمدی، نور بخشی، ذکری وغیرہ ایک قوم ٹھہرے تو بھلا باقی سناتن دھرمی، آریہ سماجی، برہمو سماجی، ناستک، آستک، عیسائی، یہودی، زرتشتی، سکھ، جینی، پرنام پنتھی، آدی واسی، بدھ وغیرہ کس منطق سے دوسری قوم ٹھہرائے گئے؟ پھر جن علاقوں میں پاکستان بنا، وہاں تو پہلے سے ہی مسلمان اکثریت میں تھے۔ جو مسلمان دارالکفر میں رہ گئے انہیں بانی پاکستان کے ’وفادار ہندوستانی شہری‘ بن کر رہنے کی ہدایت پر کون کون سے مسلم لیگی علما نے احتجاج کیا کہ یہ تو سراسر دو قومی نظریے سے انحراف تھا۔ گیارہ اگست والی تقریر کا موضوع تو خیر اتنا پامال ہو چکا ہے، کہ اس پر مزید بات چیت تحصیل حاصل ہی نظر آتی ہے۔

سوم یہ کہ \”مسلم امہ بطور سیاسی وحدت\” کو اصول دین میں شامل گرداننے کی صرف بر صغیر کے چند علما ہی کیوں کر سوجھی؟ آخر محترم غازی صاحب کی ممدوحہ سلطنت عثمانیہ، اور اس کے بعد نجد و حجاز پر قابض ہونے والی سعودی حکومت، ایران، مصر، شمالی افریقہ، وغیرہ کے مسلمان عوام، خواص، خصوصا علماءنے پچھلے ہزار برسوں میں اس تصور کی جانب کیوں اعتنا نہ کیا؟ کیا سبب ہے، کہ عربی بطور مادری زبان بولنے، اور پوری پوری عمریں قال اللہ و قال رسول کی لگن میں گزار دینے والوں میں سے کسی ایک پر بھی اس \”اصول دین\” کا القائ  انکشاف نہ ہوا، جسے بر صغیر کے مٹھی بھر علما نے سن چالیس کی دہائی میں اچانک دریافت کر لیا؟

خادم کی رائے میں اقامت دین کے لئے ریاستی قوت کو لازمی شرط سمجھنا ایک بدعت ہے۔ نہ صرف یہ کہ نقلی حوالے اس کی موانست میں نہیں ملتے، بلکہ یہ بالواسطہ اغیار کے اس الزام کی تصدیق کا سبب بنتا ہے کہ اسلام تلوار (ریاستی قوت قاہرہ) کے زور پر پھیلا۔ ہمیں تسلیم کر لینا ہوگا کہ قیام پاکستان کے لئے جدوجہد میں \”دو قومی نظریہ\” نہ تو نص دین کی حیثیت رکھتا ہے، نہ ہی اس کی کوئی آفاقی اہمیت ہے۔ یہ محض اس وقت کی مسلم اشرافیہ کو درپیش سیاسی چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کا ایک سیاسی حربہ تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس کے موجدین بھی اسے پتھر پر لکیر نہیں سمجھتے تھے چنانچہ کئی مواقع (مثلا قائد اعظم کے چودہ نکات، کابینہ مشن پلان پر آمادگی، قیام پاکستان کے بعد مجلس قانون ساز کی کاروائی، کلیدی عہدوں پر تقرریاں وغیرہ) پر انہوں نے اس نظریے سے مکمل یا جزوی روگردانی کو اختیار کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اسے ہرگز نئی مملکت کا اساسی عنصر نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اسے تاریخ کا حصہ سمجھ کر آگے بڑھنے کا عزم رکھتے تھے۔ صرف تب ہی نہیں، سن تہتر میں دستور سازی کے وقت بھی، علما نے جمہوری طریقے سے پارلیمان میں پہنچ کر، ایک متفقہ آئین پر اپنے فکری نقوش ثبت کیے، جن پر \”دو قومی نظریے\” کے اگر کوئی سایے ہیں بھی تو انتہائی خفیف۔۔

اس ملک کے حصول کی لڑائی میں بنیادی طریقہ کار جمہوری طرز سیاست کا رہا نہ کہ فتوے بازی کا۔ اس ملک میں رائج ہونے کے قابل بھی اسلامی نظام کی وہی شکل ہوگی جس پر عوام جمہوری طریقے سے اعتماد کا اظہار کریں گے۔ جمہوری سماج میں اپنے عقیدے اور سیاسی آدرشوں کی آزادی سے تبلیغ کو اساسی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ جس جس جماعت کو \”اسلامی فلاحی مملکت\” کے آدرش کی جانب بڑھنے کا جو طریقہ پسند ہوگا، وہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے اور انہیں دلائل پر مبنی مکالمے کے ذریعے اپنی جانب راغب کرنے کے لئے آزاد ہوگی۔ اس کے سوا طرز کہن پہ اڑنے، مہم جوئی، اور زور آزمائی کی قبیل کے ہتھکنڈوں سے صرف نقصان ہی ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہونے کا خدشہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments