پاکستان ٹیلی ویژن پر جنسی ہراسانی۔۔۔ قانون گیا تیل لینے


عورتوں کا عالمی دن آٹھ مارچ آنے کو ہے۔ اس دن پوری دنیا میں عورتوں کے حقوق کی باتیں ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں ابھی تک عورت جس تکلیف سے گذر رہی ہے اس کے اگر روزانہ کے واقعات کے قصے گِنے جائیں تو شاید ہزاروں کتابیں لکھی جائیں۔

عورت اسلام آباد میں ہو یا تھرپارکر میں، استحصال بہرحال اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ اسلام آباد، کراچی، لاہور کی عورت کی مدد میں آواز بلند ہو سکتی ہے یا خود اس کے پاس استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے کے ذرائع موجود ہیں جیسا کہ پی ٹی وی کی اينکر پرسن تنزيلا مظہر نے کیا ہے۔ تنزيلا نے پي ٹی وی کے ایک اعلٰی افسر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان کو جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہین۔ انہوں نے سماجی ویب سائیٹ پر ایسا الزام لگاتے ہوئے اپنی نوکری سے استعفٰی دے دیا ہے۔

 ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پی ٹی وی کے ایم ڈی تک کو شکایت کی، تنگ آکر کیس بھی درج کروایا مگر ادارے نے کوئی داد رسی نہیں کی۔

تنزيلا مظہر کے پاس تو فیس بک اور ٹویٹر ہیں کہ جن کو استعمال کرکے اس نے اس استحصال اور جنسی ہراسانی پر آواز بلند کی ۔

مگر شکارپور کی ان دو بہنوں کے پاس تو یہ ذرائع بھی نہیں تھے جو اپنے ہی گھر میں صرف دو دن کے وقفے کے بعد اپنی اپنی قبر میں جا سوئیں۔ صرف چند دنوں میں ایک ایک کر کے ،پولیس کے ایک ڈی ایس پی کی دو غیر شادی شدہ جوان بیٹیان، گھر کے اندر بقول اس کے جنوں نے فائر کر کے قتل کر دی ۔

 ڈی ایس پی کا کہنا تھا کہ ہمارے گھر میں جن ہیں انہوں نے میری ایک بیٹی کو گولیاں مار کر ہلاک کیا اور اس کے تیسرے دن میری دوسری بیٹی کو بھی اسی طریقے سے مار ڈالا۔

بات میڈیا میں ضرور آئی مگر نہ قاتل جن کو گرفتار کر کے، معصوم لڑکیون کو انصاف دلایا گیا نہ اس کی تحقیقات ہوئی کہ ماجرا کیا تھا۔

 عورت ھمارے یہاں ابھی تک ظلم کی چکی میں پس رہی ہے، اور دیہی عورت بہ نسبت شہری عورت کے زیادہ استحصال کا شکار ہے۔

ادھر ڈی ایس پی صاحب کے گھر میں پیش آنے والا واقعہ ابھی اتنا پرانا نہیں ہوا تھا کہ سندھ کے ہی شہر جام شورو میں پولیس کے ہی ایک کانسٹبل کی انیس سالہ بیٹی غزالہ سومرو نے مبینہ طور پر اپنے گلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی کر لی۔ خودکشیاں ہوتی رھتی ہیں مگر غزالہ کی خودکشی اس لیئے عجیب لگ رہی ہے کہ اس کا سبب یہ بتایا جا رھا ہے کہ ایک پڑوسن نے ھمارے گھر آ کےغزالہ کو بلا جواز برا بھلا کہا جس پر میری بیٹی نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔

اس خودکشی کا بھی نہ کیس داخل ھوا ، نہ پوسٹ مارٹم ھوا۔ خاموشی سے اس غزالہ سومرو کو دفنا دیا گیا جس کا صرف ایک ماہ بعد بیاہ ہونے والا تھا ۔ قانون گیا تیل لینے۔

 سوبھو ڈیرو خیرپور کی سویرا تنیو کی عمر صرف تیرہ سال ہے، اس کو تین لاکھ روپے میں بیچا گیا ۔ مگر سب سے افسوسناک بات یہ ھے کہ بیچنے والا کوئی اور نھیں اس کا اپنا سگا باپ ہے۔ اس لڑکی کی قسمت اچھی ہے کہ کسی نے اس کی اطلاع پولیس اور میڈیا کو دے دی اور ملزم گرفتار ھوئے ہیں ورنہ سینکڑوں سویرا تنیو روزانہ استحصال کا شکار ہو رہی ہیں ان کی تو سسکیاں بھی کوئی نہیں سن پاتا۔

عورتوں پر ظلم سے متعلق سب سے زیادہ مجھے اس تصویر نے ہلا کر رکھہ دیا جو یہاں منسلک ہے، کشمور کے علائقے ٹُھل کی عمر رسیدہ حرمت کھوسو کو کھانے پینے کی کسی چیز میں کوئی نشہ دیکر بیہوش کیا گیا ، صبح جب وہ جاگی تو اس کے دونوں کان چیرے ہوئے تھے۔ جس میں سونے کی دو چھوٹی سی بالیاں تھیں ۔ کس نے کیا یہ سب کچھ؟ معلوم نہ ہو سکا۔ ظاہر ہے کوئی قریبی ہی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).