ووٹر اور لیڈر – طنز و مزاح


ووٹر سیاست دانوں کی ایسی سوتیلی اولاد ہے جو اسے صرف اپنے کڑے وقت پر یاد آتی ہے۔ ووٹر کا صرف ایک دن ہوتا ہے باقی تمام پانچ سال جیتنے والے کے۔ پاکستانی ووٹرز کا شمار دنیا کے مظلوم ترین ووٹرز میں ہوتا ہے۔ ووٹر کی پرورش علم، ترقی اور عیش و عشرت سے دور رکھ کر کی جاتی ہے۔ اسے صرف چند مخصوص نعرے، جھنڈے اور لیڈرز کے نام رٹائے جاتے ہیں جسے وہ زندہ باد کے لاحقوں کے ساتھ زور زور سے ساری زندگی گاتا رہتا ہے۔

ووٹر نے خدا نہیں دیکھا ہوتا ہے مگر اپنا لیڈر زندگی میں ایک بار کہیں دور سے دیکھا ہوتا ہے۔ وہ جب بھی سنتا ہے یہی سنتا ہے کہ اس کا لیڈر اس کی غربت دور کرنے کے لئے کام کررہا ہے۔ وہ اسی بات سے فاقوں کے درمیان بھی نہال رہتا ہے۔ وہ اپنی سخت محنت کی زندگی میں سے وقت نکال کر، سردی و گرمی کی پرواکیے بغیر اپنے لیڈر کے لئے دریاں بچھاتا، کرسیاں رکھتا اور قناتیں لگاتا ہے۔ اسے اپنی بیوی سے زیادہ اپنے لیڈر پر بھروسہ ہوتا ہے۔ بیوی اگر کسی غیر مرد سے دو منٹ بات کرلے تو وہ طوفان کھڑا کردیتا ہے اور لیڈر دشمن کی گود میں بھی جا بیٹھے تو اسے اس کی دانش مندی سمجھتا ہے۔ ووٹر اپنی پارٹی کی وجہ سے لیڈر کو پسند نہیں کرتا بلکہ لیڈر کی وجہ سے اسے پارٹی اچھی لگتی ہے۔ اسے اس بات کی الجھن نہیں ہوتی کہ اس کی زندگی میں خوشحالی کیوں نہیں آرہی بلکہ وہ اس بات سے خوش رہتا ہے کہ اس کا لیڈر حکومت کے کام چھوڑ کر روزانہ اس کے لئے ٹی وی شوز میں وقت نکالتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے ووٹر کے لئے کون کون سے منصوبے تیار کررہا ہے۔ ووٹر کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اس کا لیڈر اس کے لئے صرف کاغذی منصوبے کیوں بناتا ہے؟

سمجھا جاتا ہے کہ ووٹر کے منہ میں زبان نہیں ہوتی۔ ہوتی ہے مگر صرف بیوی، بچوں پر دھاڑنے کے لئے۔ لیڈر کے سامنے یا پیچھے اس کی زبان ہی نہیں کُھلتی۔ وہ سمجھتا ہے کہ مذہبی کتابوں کے بعد جو سب سے مقدس چیز دنیا میں اتاری گئی وہ اس کا لیڈر ہے۔ وہ اپنے لیڈر کے بارے میں دوسروں کے منہ سے بھی کوئی تنقید سننا نہیں چاہتا۔ ووٹر اپنے لیڈر کے لئے ستائشی زبان اور غیروں کے لئے آتشی کمان رکھتا ہے۔

ووٹر کو اپنے ووٹ کی اہمیت کا کوئی اندازہ نہیں۔ وہ اسے اپنے لیڈر کی امانت سمجھتا ہے اور بلاتکلف ہر بار لیڈر کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔ اسے اپنے لیڈر سے یہ پوچھنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی کہ برسہا برس سے میں آپ کو ووٹ دےرہا ہوں، آپ مجھے کیا دے رہے ہیں؟ آپ میرے سامنے سنگل پتی تھے اور آج ارب پتی ہیں، میں کل غریب تھا آج مفلس ہوں، آخر کیوں؟ آپ ہم پر صرف زبانی رحم کھاتے ہیں اور اکیلے بیٹھ کر اربوں کی امداد کھا جاتے ہیں، ایسا کیوں؟ میرا بچہ چائے کے کھوکھے میں اور آپ کا بچہ یوکے میں، کیوں؟

ووٹر کی دنیا بھر میں بڑی عزت ہے، سوائے پاکستان کے۔ ہمارے ووٹرز اگر ووٹ کی اہمیت سمجھ لیں تو ان کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ لیڈر پوجنے کے لئے نہیں، منتخب کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ جو آپ کو کچھ نہ دیں، انھیں کچرے دان میں ڈال دیں۔ تب ہی آپ اپنی کمائی، اپنے ملک کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اچھا لیڈر وہی ہوتا ہے جو اپنی اولاد اور ووٹر سے یکساں محبت کرتا ہو۔ جب اولاد برے باپ کو ٹھوکر مار سکتی ہے تو ووٹر برے لیڈر کو کیوں نہیں؟ جب تم برے لیڈر کو پیروں پر رکھوگے تب ہی اچھا لیڈر تم کو سر پر بٹھائے گا۔ قسمت پانچ سال میں ایک بار دستک دیتی ہے۔ اچھی قسمت چنو، برا لیڈر نہیں۔

ووٹنگ کا دن ووٹ ڈالنے کے لئے ہوتا ہے، آرام کرنے کے لئے نہیں۔ جو قوم ووٹنگ کے دن آرام کرتی ہے وہ اگلی مدت تک بے آرام رہتی ہے۔ جو لیڈر صرف ووٹ لینے اپنے حلقے میں آئے اس کے ساتھ وہ سلوک کرو کہ اسے لینے کے دینے پڑ جائیں۔ طاقت لیڈر میں نہیں ووٹرز میں ہوتی ہے جو اسے لیڈر بناتی ہے۔ لیڈر من مانی کے لئے نہیں بلکہ اپنے ”ووٹر جانی“ کے لئے ہوتا ہے۔ لیڈر کو سمجہادو وعدہ توڑوگے تو ہم ناتا توڑیں گے۔ لیڈر حکومت کرتا ہے عوام کے لئے، اپنے لواحقین کے لئے نہیں۔ لیڈر کو تقریر سے نہیں، عمل سے پہچانو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).