ہماری گرتی ہوئی اخلاقی اقدار


وقت کی پابندی اور وعدے کی پابندی کے بارے میں مضامین شاید ہم سب نے ایک دفعہ تو اپنے امتحانی پرچے میں ضرور ہی لکھے ہوں گے۔ میں نے شاید اپنی نصابی کتابوں میں لکھے گئے اسباق کو کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے لیاہے ورنہ لگتا نہیں کہ زیادہ تر لوگ جو کچھ نصاب میں پڑھتے اور لکھتے ہیں وہ اس کے مفہوم پر بھی غور کرتے ہوں گے۔ میرے والد صاحب بھی ان چند لوگوں میں سے ہیں جو وقت کی پابندی کے بہت قائل ہیں، نتیجتاً ہر شادی بیاہ کی تقریب میں ہم لوگ سب سے پہلے پہنچے ہوتے تھے۔یہاں تک کہ بعض اوقات تو میزبان خود بھی اس وقت تک شادی ہال میں نہیں آئے ہوتے تھے۔

خیر پھر امی نے ابو کو بہت سمجھایا کہ کارڈ پر دیے گئے اوقات میں ایک گھنٹے کا اضافہ کر لیا کریں تو صورتحال کچھ بہتر ہوئی۔ مگر یہ اور بات کہ امی کو یہ بات انہیں سمجھانے میں کافی سال لگے۔ ابو جب بیمار ہو کر ہسپتال گئے تو ڈاکٹر نے کہا صبح چھے بجے انہیں ناشتہ کروا دیں اور پھر کچھ کھانے کو مت دیں۔ ہم نے ہدایات پر عمل کیا۔ دو گھنٹے بعد ڈاکٹر صاحبہ تشریف لائیں تو ان کے پوچھنے پر ہم نے بتا دیا کہ چھے بجے کے بعد کچھ کھانے کو نہیں دیا تو بولیں اوہ یہ تو میں نے اس لئے کہا تھا کہ لوگ وقت کے بارے میں ہدایات پر پورا عمل نہیں کرتے۔ آپ انہیں آٹھ بجے تک کھانے کو دے سکتے تھے۔

کچھ عرصہ قبل میں نے سوچا کہ اپنے کام کو ایک درجہ بڑھا لوں، میں نے ایک دفتر کرایہ پر لیا، کچھ کمپیوٹر رکھے اور ایسی لڑکی کی تلاش شروع کر دی جو میرے ساتھ کام کر سکے۔ میں کوئی طالبہ یا ایسی لڑکی ڈھونڈ رہی تھی جو ابھی تجربہ حاصل کرنا چاہتی ہو، تاکہ میں اپنی ضرورت کے مطابق اسے کام سکھا سکوں۔ کچھ لڑکیوں نے رابطہ کیا تو ایک کو میں نے بلایا، چار بجے کا وقت طے ہوا۔ وہ لڑکی نہ آئی۔ پوچھنے پر اس نے معذرت کی کہ اس کی والدہ علیل تھیں اس لئے وہ نہ آ سکی نہ ہی اطلاع دے سکی۔ خیر یہ عذر قابل قبول تھا۔ دو دن بعد کا وقت طے ہوا، وہ پورا دن بھی گزر گیا اور وہ لڑکی ندارد۔ پھر کال کیا تو بولی کہ اسائنمنٹ دے دی تھی ٹیچر نے ، اس میں مصروف تھی، میں نے کہا مگر تم کال کر کے بتاتی تو سہی، کہنے لگی کہ جب میں پڑھتی ہوں تو اتنا تو آپ کو بھی علم ہونا چاہیے کہ مصروف ہی ہوں گی۔ میں نے کہا کہ بی بی میں بھی نیا کام شروع کر رہی ہوں، بہتر ہے کہ تم اب نہ ہی آو، تو کچھ منٹ بعد اتنی لمبی ای میل مجھے بھیج دی کہ آپ نے تو میرے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، مجھے اس نوکری کی سخت ضرورت تھی۔

خیر ایک اور لڑکی مل گئی مجھے۔ کام بھی اچھا کرتی تھی مگر کہنے لگی کہ میں اس طرح کام کروں گی کہ گھر سے کام کر کے آپ کو بھیج دیا کروں گی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ جو بھی کرو خود سے کرنااور کسی کا کام نقل مت کرنا۔ کہنے لگی کہ ٹھیک ہے۔ مجھے کچھ کرسمس کی تصویریں درکار تھیں جو بچوں کی ویب سائٹ پر لگ سکیں۔ اسے کہا کہ بنا کر بھیج دو۔ اس نے طے شدہ وقت پر بھیج دیں۔میں نے خاص طور پر دوبارہ پوچھا کہ نقل تو نہیں کیں نا، کہنے لگی کہ ہر گز نہیں۔ مگر جب میں نے فائل کھولی تو جس تصویر کو اس نے چوری کر کے ٹریس کیا تھا، وہ تک بھی اس فائل میں موجود تھی۔ میں اپنے ہر کلائنٹ سے یہ کمٹ کرتی ہوں کہ میں اصلی کام کر کے دوں گی اور نقول دینا میرے کام میں دھوکہ بازی کے ضمن میں آتا ہے۔ اس لڑکی سے بھی کام نہ چلا۔ پھر ایک اور محترمہ تلاش کیں۔ وہ بھی گھر سے ہی کام کرتی تھیں۔ ایک کام دیا تو بہت ہی اچھا کام کر کے بھیجا۔ پھر میں نے اگلا کام دیا، ڈیڈ لائن بتائی اور مطمئن ہو گئی۔ ڈیڈ لائن سے ایک دن قبل اسے دوبارہ پوچھا تو کہنے لگی، اصل میں مہمان آگئے ہیں تو میں کام تو نہیں کر سکی۔ میں نے کہا تو وقت پر بتا دیتیں۔ سہولت سے کہنے لگی کہ ہاں میری معذرت قبول کریں۔ میں نے اگلے روز سارا دن اور رات بیٹھ کر کام مکمل کیا اور کلائنٹ کو بھیجا۔وہ تو شکر ہے کہ میں خود بھی وہ کام جانتی تھی۔

وعدہ خلافی، چوری اور دھوکہ، ان سب کا تجربہ مجھے صرف دو کلائنٹس کا کام ہی دوسروں سے کروانے میں ہو گیا اور جھوٹ بولنا یا وعدہ خلافی کرنا اس قدر آسان ہے کہ لوگ اس میں کوئی برائی یا عیب نہیں سمجھتے ،نہ ہی بعد میں کسی بھی قسم کی ندامت محسوس کرتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ اپنے کہے گئے الفاظ کی اہمیت کیوں نہیں سمجھتے اور کسی بھی وعدے یااپنے کہے گئے الفاظ کا مان رکھنے کی اہمیت کیوں ختم ہو گئی ہے؟ روز مرہ کے کام ہوں یا رشتے ناتے طے کرنا، ہر چیز میں بہت سے لوگ جھوٹ اور دھوکہ بازی سے کام لیتے ہیں۔ ایک رشتہ دار نے بیٹی کی شادی کی تو شادی کے بعد پتہ چلا کہ لڑکااس کے گھر والوں کی بتائی گئی عمر سے چھے سال زیادہ بڑا تھا اور اس کی ڈگری بھی وہ نہیں تھی جو بتائی گئی تھی۔ اب بھلا شادی سے پہلے وہ پوچھتے کہ اپنی ڈگری دکھاﺅ یا برتھ سرٹیفکیٹ دکھاو؟ جو لڑکے والوں نے کہا اس پر اعتبار کر لیا۔ پوچھے جانے پر لڑکے والوں نے کہا جی بھلا اس بات سے فرق ہی کیا پڑتا ہے؟ بھئی یہ فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں۔ سب کچھ صاف صاف بتا دیتے اور فیصلہ لڑکی والوں پر چھوڑ دیتے۔

میں اس بات کی بڑی قائل ہوں کہ رشتے ناتے بچوں کی مرضی سے طے کرنے چاہئیں۔ ’ہم سب‘ پر مباحثے پڑھ پڑھ کر اپنی بیٹی کے بارے میں اس دن اپنے میاں صاحب کو پوچھا کہ کل کو جب یہ بڑی ہو جائے گی تو اسے لڑکوں کے ساتھ خود ملاقات کرکے اس کا رشتہ ڈھونڈنے دیں گے؟ کہنے لگے کہ ہر گز نہیں۔ میں نے کہا کہ کیوں میرے نزدیک تو آپ بہت روشن خیال تھے۔ میاں صاحب بولے کہ لوگ اس قدر جھوٹے اور دھوکے باز ہیں کہ اپنی بیٹی کی تربیت پر پورا یقین ہونے کے باوجود میں کل کو اسے کسی لڑکے سے نہیں ملنے دے سکتا، ہاں اگر مغربی معاشرے میں رہتے ہم تو میں ضرور خود اسے ملنے دیتا کیونکہ وہاں قانون پر عمل درآمد ہوتا ہے اور لوگ عموماً سچ بولتے ہیں۔ بات تنگ نظری کی نہیں بات معاشرے کی گرتی ہوئی اخلاقی اقدار، دھوکہ اور مکر وفریب کی ہے۔ میں اس کے بعد کچھ نہ بولی۔

ہر مضمون کے اختتام پر عموما ًایک حل پیش کیا جاتا ہے مگر باوجود بے تحاشا غور کرنے اور سوچنے کے مجھے ان گرتی ہوئی اقدار پر قابو پانے کا کوئی حل سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید اگر قانون پر ہر معاملے میں عمل درآمد شروع ہو جائے تو لوگوں کے رویے میں کچھ تبدیلی آئے یا شاید انفرادی طور پر کوشش سے کچھ فرق پڑے۔ آپ ہی بتائیے؟

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim