نظام کی تبدیلی مگر کیسے ؟


جب کسی ملک میں کرپشن کو اخلاقی سند مل جائے، انصاف چند طاقتوروں کی باندی بن جائے، دولت کی گردش امیروں کے گھر سے امیروں کے گھر تک چکر کاٹتی رہے، لوگ ہجرت پر مجبور ہوں تو یہ نظام کی مجموعی ناکامی تصور کی جاتی ہے۔ ایسے میں نظام کی تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی کہیں یا بداعمالی، پاکستان بھی اسی صورت حال سے گزر رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ نظام کی تبدیلی کیسے ممکن ہو؟ اس کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں نظام کو سمجھنا پڑے گا۔
کسی بھی ملک کے تمام اداروں جیسے کہ سکول، کالجز، یونیورسٹیز، ہسپتال، پولیس، عدالتیں، ریونیو، کسٹم، پی آئی اے، ریلوے، سٹیل مل اور ایسے تمام اداروں کے مجموعی ڈھانچے یا فریم ورک اور ان کے طریق کار کو مجموعی طور پر نظام کہتے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کا براہ راست مطلب سیاسی، انتظامی اور معاشی نظام کی تبدیلی ہوتا ہے۔ اس نظام کی تبدیلی کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے ہمیں کارپوریٹ سیکٹر کے تبدیلی کے نظام کو سمجھنا پڑے گااور اسے ملکی نظام کی تبدیلی کے طریقہ کار سے جوڑنا پڑے گا۔ کارپوریٹ سیکٹر میں تبدیلی کے دو طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ پہلی اپروچ کو اوپر سے نیچے( ٹاپ ٹو باٹم اپروچ) کہتے ہیں۔ اس کے مطابق کسی بھی نظام کو بدلنے کے لیے ہمیں اس کمپنی کے سربراہ یا سی ای او کو بدلنا پڑتا ہے۔ نیا سربراہ ایک الگ سوچ اور ویژن کے ساتھ آتا ہے۔ وہ سب سے پہلے کمپنی کے میمورنڈم میں تبدیلی کرتا ہے جس سے کمپنی کے بنیادی قوانین میں تبدیلی آتی ہے۔ وہ کمپنی کے لیے ایک منفرد پالیسی لے کر آتا ہے۔ وہ ان تمام مینیجرز کو بھی اپنے عہدوں سے ہٹا دیتا ہے جو ایماندار نہ ہوں یا کمپنی کی اس پالیسی کے خلاف مزاحمت کریں۔ یہ سی ای او اور تمام مینیجرز پالیسی اور وژن کے مطابق کام شروع کرتے ہیں اور کچھ سالوں میں پوری کمپنی کا نظام بدل جاتا ہے۔ سٹیو جابز نے ایپل کو اسی طریقے سے دوبارہ سے کامیابی کی بلندیوں پر لا کھڑا کیا تھا۔ ایسے ہی کسی ملک کے نظام میں تبدیلی کے لیے ایک نیا حکمران ایک الگ سوچ اور الگ ویژن کے ساتھ حکومت میں آ کر قانون میں کچھ ضروری تبدیلیاں کرے، اپنی کابینہ میں قابل اور ایماندار لوگ لائے اور تمام اداروں کے سربراہ ایماندار، قابل اور پروفیشنل لوگوں کو لگائے تو کچھ سالوں میں پورا نظام خودبخود بدل جائے گا۔ مہاتیر محمد اس کی بہت عمدہ مثال ہے۔
تبدیلی کی دوسری اپروچ باٹم ٹو ٹاپ یعنی نیچے سے اوپر کی اپروچ ہے۔ اس کے مطابق کمپنی میں نچلے لیول پر موجود ملازمین اور یونینز کے لیڈرز کمپنی میں موجود خامیوں کی نشان دہی کرکے تمام ملازمین کو ان خامیوں کے بارے میں آگہی مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات پر قائل کرتے ہیں کہ نہ تو خود اس فرسودہ نظام پر عمل کریں اور نہ ہی کمپنی کے مالکان کو اس پر عمل کرنے دیں۔ اس سلسلے میں احتجاج اور ہڑتالوں کے ذریعے کمپنی کے کرتا دھرتا کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ناانصافی کا نظام تبدیل کریں۔ کمیونسٹ تحریک اس کی تاریخی مثال ہے۔ اس اپروچ کو ملکی نظام سے اس طرح سے جوڑا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کو ان کے حقوق، ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور نظام کی خرابیوں کے بارے میں آگہی فراہم کریں اور انہیں اس بات پر قائل کریں کہ وہ اس نظام کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر کے حکومت سے نظام کی تبدیلی ممکن بنائیں۔ انقلاب فرانس اور نیلسن منڈیلا کی تحریک اس کی شاندار مثالیں ہیں ۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بطور رہنما ان دونوں طریقوں کو وقت کی مناسبت سے استعمال کیا۔ انہوں نے عرب کے لوگوں کو جہالت کی تاریکی سے اٹھا کر انہیں ان کے حقوق سے آگاہ کیا اور ان کے حقوق کے لیے ہر سطح پر اور ہر طریقے سے نہ صرف تحریک چلائی بلکہ جنگ بھی لڑی اور جب برسراقتدار آئے تو اپنے اور صحابہ کرام کے بہترین کردار کے ذریعے حکومتی نظام کو بدل ڈالا۔ ہمیں اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).