عشق کرنے کی حسرت


کتاب ’یادوں کی برات‘ میں جوش ملیح آبادی کے اٹھارہ معاشقوں کا ذکر پڑھنے کے بعد ہم پر شدید قسم کا حسد طاری ہے۔ حسد کی ایک بات تو یہ کہ جوش صاحب کا کوئی ایک عشق بھی ناکام نہیں ہوا، دوسری یہ کہ اکثر اوقات انہیں پہل نہ کرنا پڑی بلکہ حسین عورتوں نے خود آگے بڑھ کر ان سے عشق کیا۔ اٹھارہ میں سے تین تو اپنی جان سے گزر گئیں۔ ایسا بھی ہوا کہ ریل میں سفر کرتے ہوئے آنکھ لڑی اور مسافت کے دوران ہی لطف کی کئی منزلیں طے ہو گئیں۔ وقت اور سرمائے کی فراوانی ایسی تھی کہ دوران سفر عشق ہوا، محبوبہ نے جس اسٹیشن پر اترنا تھا یہ بھی وہیں اتر گئے، وہیں ہوٹل میں کمرہ بھی کرائے پر لے لیا، مہینہ بھر قیام رہا، خلوت اور جلوت کا ساتھ رہا۔ پھر جب محبوبہ کے والد کو خبر ہو گئی تو یہ بھی اپنی دکان بڑھا گئے۔
یہ معاملہ بھی ہوا کہ ایک ساتھ دو سہیلیاں ان پر مر مٹیں، ایک نے حسد کے مارے دوسری کو کچھ کہا تو اس نے خود کشی کرنے کو سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ یہ اسے نکال کر ہسپتال لے گئے تو وہاں کی ڈاکٹر ان پر فریفتہ ہو گئیں۔
ارے…. جوش ملیح آبادی نہ ہوئے، مستنصر حسین تارڑ ہو گئے۔ ہم تو جلن کے مارے بل کھا رہے ہیں۔
ہائے کاش! ہم بھی ایسے خوش نصیب ہوتے۔ کوئی جمال ہم پر بھی جال پھینکتا، کوئی صیاد ہم پر بھی گھات لگاتا۔ ہم بھی گرفتار ہوتے، ہم بھی شکار ہوتے۔ کسی کافر زلف کا بادل ہماری تپتی جوانی کو بھی سایہ کرتا، ہماری تحریروں سے بھی کوئی رنگین و شاداب لمحے ٹپکتے۔ کوئی ہمیں مڑ مڑ کر دیکھتا اور ہم بے نیازی سے سر جھٹک کر آگے بڑھ جاتے۔ ہم آنکھ اٹھاتے اور بجلی لپلپا جاتی، نظروں کے تیر دلوں میں کھب جاتے۔
کبھی گھر واپسی پر ہماری شرٹ سے گز بھر لمبا سرمئی بال برآمد ہوتا، اور جینا وبال ہوتا۔ بیگم کرسی سے باندھ کر ہم پر وائپر برساتیں اور اس کلموہی کا نام پوچھتیں۔ جواب میں
ہم چپ رہے، ہم’رو‘ دیے، منظور تھا پردہ تیرا
کی تصویر بنے ہوتے۔
ذرا ہماری شرافت، احتیاط یا تخیل کا افلاس دیکھئے، معاشقوں کی خواہش میں بھی بیگم در آئی ہیں۔
اب یہ بیگم کے ذکر کا فیضان ہے، اپنی بے بسی و حسرت لکھ دینے کی کرامت ہے یا انگور کھٹے ہونے کی حکمت۔ دوبارہ سوچتے ہیں، معاشقہ لڑانا سراسر گھاٹے کا سودا نظر آتا ہے۔ شاید اس کام کے لیے بے حسی، دلیری اور اخلاق باختگی درکار ہوتی ہو۔ ورنہ جس میل جول پر پکڑے جانے کا ہول رہے، وہ رشتہ ہی کیسا۔ جب کسی ایک سے وفاداری کا پیمان کر لیا تو کسی دوسرے سے تعلق داری کیوں کر؟
لہٰذا کچھ تو اقدار کا خیال، کچھ حوصلے کا کال اور کچھ تیزی سے سفید ہوتے بالوں کاخیال۔ ہم بخوشی اپنی حسرت سے دست بردار ہوتے ہیں۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood