بورخیس کا الف، لوسا کا پیرو اور پاکستان کا تارڑ


ماریو ورگاس لوسا نے اپنے نوبل خطاب میں کہا ’بورخیس کے الف میں کائنات کا مرکز ہے اور پیرو میں رہائش پذیر قومیتوں، افراد اور ان کے باہمی تعلق کو دیکھیں تو پیرو بورخیس کا الف ہے۔ انگریزی یا بین الاقوامی ادب کا طالب علم جب ایسی تحاریر پڑھتا ہے تو سوچتا ہے کہ کیا کبھی اسے بھی ایسا محسوس ہو گا کہ وہ کہہ سکے، فلاں اردو ادیب کی تحاریر پاکستان کا ’الف‘ ہیں جس میں تمام اقوام کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و ادب کے زاویے ایک مرکز میں مل جاتے ہیں۔ تمام لوگ ان میں اپنا مرکز تلاش کرتے ہیں۔
ایسے جذبات جو مخصوص نظریات رکھنے والوں کو دوسروں سے محبت کرنا سکھا دیں۔ ایسی تحاریر جن کے الفاظ سے فاکنر کی گرمی محسوس ہو تو اچیبے کے افریقی قبائل کے رقص میں پنہاں زندگی کا احساس، میخائل شولوکوف کے ڈان کا بہاو¿ یا میلان کنڈیرا کی چیکوسلواکیہ کی طرف مراجعت، ٹوماس ٹرانسٹرومر کے سویڈن کے طویل سرما کی ٹھنڈک یا اورحان کمال کے ترکوں کی نفسیات۔ یہی چیزیں بیک وقت پاکستان کے طول و عروض کی اقوام کی سماجیات، نفسیات، کیفیات، معاشیات اور احساسات میں جیتی جاگتی نظر آئیں۔ جس کے ناول بین الاقوامی تہذیب و اقوام کے آہنگ سے لبریز ہوں تو سفرنامے جو صحراو¿ں اور گھاٹیوں کو ہپناٹائز کر دیں اور وہ خود آ کر کہیں کہ دیکھو یہ میں ہوں جس کا ذکر فلاں شخص نے فلاں کتاب کے فلاں صفحہ پر کیا۔
ہاں ایسا ممکن ہے، ایسا ممکن ہے اور وہ پیرو، وہ الف مستنصر حسین تارڑ ہیں اور انہی تحاریر کی بدولت ’ای بک‘ کے دور میں کہیں تکیہ تارڑ کا انعقاد ہوتا ہے تو کبھی نوجوان صبح سویرے ماڈل ٹاو¿ن پارک میں ان کا تھڑا بیٹھتے ہیں۔ یہی فن ان کے کالموں کا خاصہ ہے جنہیں بین الاقوامی ادب اور قومی معاشرت و جذبات کا انسائیکلو پیڈیا کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ جن میں انہوں نے کبھی اقبال کے معاشقوں کا ذکر کیا تو کبھی حسرت موہانی کی یادوں کی بارات نکالی۔ کبھی ابن صفی کی سیریز چلائی تو کبھی منشی ٹیرتھ رام کے احوال و آثار اور منٹو کے قصے سنائے۔ جن کی بدولت بین الاقوامی ناولوں کے تراجم کی لہر اٹھی۔ جن میں کبھی مڈل کلاس خاندان کے سماجی پہلوو¿ں کا احاطہ کیا تو کبھی بطور ادیب اپنی ادبی سوانح حیات اور اسباب و علل کے گہرے فلسفیانہ اسرار و رموز کو اس آسانی سے بیان کیا جیسے مارکیز نے کافکا کی کایا کلپ پڑھتے سوچا کہ اچھا تو کہانی یوں بھی لکھی جاتی ہے۔جن میں کبھی بھٹ شاہ کی شاعری سنائی تو قلندر کی دھمال کے دوران روحانی مدار کی تخلیق کو آشکار کیا۔ کبھی نوجوان ادبا کا حوصلہ بڑھایا تو جب سب نے عبداللہ حسین کے خلاف توپیں سیدھی کر دیں تو انہی تحاریر کو اس کی ڈھال بنا ڈالا۔
جس نے سارتر کی مانند کبھی اپنے نام کو کسی ادارے سے نہ جوڑا۔ جس نے زندگی میں ایسی عزت اور خلوص کمایا جو اکثر مرے ہوو¿ں کو بھی نصیب نہیں ہو پاتا۔ جس کی تحریروں میں موجود پرندے خواجہ عطار کی منطق الطیر کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جسے سوچتے شیخ سعدی یاد آ جاتا ہے۔ تب بین الاقوامی ادب کا طالب علم سوچتا ہے کہ مستنصر حسین تارڑ پاکستانی تہذیب و ثقافت کا پیرو ہے، وہ بورخیس کا الف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).