سیانے کوے جنگ سے کیوں ڈرتے ہیں؟


کوے ہمارے کلچر کا بہت اہم حصہ ہیں لیکن انہیں وہ پیار محبت اور اہمیت نہیں دی جاتی جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ پرندہ پاکستان اور بھارت، دونوں ممالک میں پایا جاتا ہے۔ انسانی آبادیوں کے آس پاس کہیں گھونسلہ بنا لیتا ہے۔ مست ملنگ قسم کا جان دار ہوتا ہے۔ جو دے دیجیے کھا لے گا، سب دا بھلا سب دی خیر۔ ہماری دیسی شاعری ہمارے محاورے ہر جگہ کوے بھرے پڑے ہیں۔ کوے ہنس کی چال چلیں تو ہمیں اعتراض ہے، کوئی سیانا کوا غلط چیز کھا لے تو بھی محاورے بن جاتے ہیں، انہونی کی مثال دینی ہو تو کوا سفید کر دیتے ہیں اور اسی طرح بی فاختہ کا دکھ سہنا برداشت نہ ہو تو بھی کوے ہی برے بھلے بنتے ہیں کہ وہ انڈے کھا گئے۔ لیکن کوے شاعری میں پیار محبت کے سفیر کہلائے جاتے ہیں۔ کوا منڈیر پر بیٹھتا نہیں تو خاتون کی نظریں افق کے پار محبوب کا گھوڑا یا جیپ وغیرہ ڈھونڈنے لگتی ہیں۔ کبھی وہ اسے چوری آفر کرتی ہیں، کبھی شکر وغیرہ کا لالچ دیا جاتا ہے کہ بس کہیں سے آن کر دیوار پر ٹکے تو دور دیس سے آنے والے کی آس بندھے۔ کاں بولیا بنیرے تے / دور دیسوں آن والیا / ریا یقین نہ تیرے تے۔ تو کبھی کبھی جب یہ سین بھی ہوا کہ کوا خوراکیں کھا کر اڑ اڑا گیا اور ہوا کچھ نہیں تو بار بار تاریخیں دینے والے کوے جملہ ماہی محبوب لوگوں کو بدنام کر گئے۔

کوا عام طور پر بہت لالچی اور چالاک تصور کیا جاتا ہے۔ بزرگ کہتے تھے کہ اس کی نگاہ بہت تیز ہوتی ہے۔ دور سے بھانپ لیتا ہے اور خوراک حاصل کرنے پہنچ جاتا ہے۔ تو کوووں کے بارے میں عمومی رائے یہ رہی کہ لالچ، چالاکی اور بہت سی دوسری سستی حرکات ان کے ساتھ جوڑ دی گئیں اور کوے نفرت کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ اسلاف نے یہاں تک کوشش کی کہ اگر کوا حلال ہو جائے تو شاید لوگ اس سے پیار محبت کر لیں مگر یہ ممکن نہیں ہوا۔ بغداد پر جب ہلاکو خان کا تاریخی حملہ ہوا تو اس وقت بھی یہی بحث جاری تھی۔ تیرہویں صدی میں کیا گیا یہ حملہ کتنے کووں کا مستقبل تاریک کر گیا، ہلاکو خان کیا جانتا ہو گا۔ کوے حلال ہو جاتے تو آج ان کی آبادی بھی کہیں زیادہ ہونی تھی اور یہ تو ابھی ماضی قریب میں ایک بزرگ نے تھیوری بھی پیش کی تھی کہ قربانی سے بہرحال آبادی بڑھتی ہے۔ اسی طرح بچوں کو آج تک پیاسے کوے کی داستان پڑھا کر ان میں کوے سے محبت جگانے کی کوشش ہر سکول میں کی جاتی ہے لیکن شاید کالا رنگ یا اس کی آواز بچوں کو بھی اس سے دور رکھتی ہے۔

آج جب عارف العصر کے یہاں حاضری ہوئی تو وہ قدرت کو سراہنے کے موڈ میں تھے۔ گھر کی تنگنائیوں سے نکل کر باہر آئے۔ ایک انگڑائی لی، ایک پیر اور ہاتھ کو ہلا کر پورے تین سیکنڈ ورزش کی پھر سگریٹ سلگا کر تازہ ہوا کے مزے لیے اور بازو سے پکڑ کر سڑک پر لے گئے۔ آس پاس خالی میدان، بندہ نہ بندے کی ذات، فقیروں کی کٹیا شہر سے الگ تھلگ دور پرے ہوتی ہے، سو تھی۔ تو وہاں اس میدان میں ایک ٹریکٹر والا ہل چلا رہا تھا۔ اب ہوتا کیا تھا کہ ٹریکٹر جس جگہ سے ہل چلا کر ہٹتا وہاں زمین کھد جاتی اور تازہ مٹی باہر ابل آتی۔ عارف کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ اڑتی مٹی کی پرواہ کیے بغیر عین ہل والی جگہ پر جا کھڑے ہوئے۔ کہا دیکھیں، جہاں ہل چلتا جائے گا وہاں یہ چھوٹے چھوٹے پرندے تیزی سے آ کر کھدی ہوئی زمین پر بیٹھتے جائیں گے۔ انہیں خوراک چاہئیے ہوتی ہے تو یہ تازہ نکلی ہوئی مٹی میں سے کیڑے مکوڑے تلاش کرتے ہیں، بھرپور لنچ ہوتا ہے، باقی بچا کر اپنے بچوں کے لیے گھونسلے میں لے جاتے ہیں۔ کافی دیر پرندوں کا کھیل دیکھا کیے۔ کوئل، چڑئییں، شاما، ہدہد رنگا رنگ کے جناور بھٹک رہے تھے، ادھر سے ادھر منہ مارتے تھے، کوے لیکن اڑ جاتے۔ جہاں جہاں اس میدان کے اطراف عارف کے ساتھ قدم رنجی ہوئی سبھی اپنا اپنا چوگا لیتے رہے، کوے مگر چونک کر اڑ جاتے۔

اب ہم گھر کے باہر لگی گھاس پر بیٹھ چکے تھے۔ انہوں نے عینک کے دھندلے شیشوں سے دیکھتے ہوئے کوئی چھ سو گز دور اشارہ کیا، ”اؤ کاں ویکھ رئے او؟ ” جی دیکھتا ہوں۔ ”یار اے کاں بڑے سیکیورٹی کانشس ہوندے نیں۔ یہ ہر وقت محتاط رہتے ہیں۔ ایکدم چوکنے، ادھر ادھر دیکھ کر، نہایت احتیاط سے ہر قدم بڑھاتے ہیں۔ انہیں زبردستی کا خوف خود پر مسلط کرنے میں مزا آتا ہے۔ یہ بے فکرے نہیں رہ سکتے۔ جب کوئی ٹینشن نہیں بھی ہوتی تب بھی یہ پریشان گھوم رہے ہوتے ہیں۔ انہیں شوق ہوتا ہے کہ یہ خود بھی پریشان رہیں اور دوسروں کو بھی کریں۔ کہیں ایک آدھی گولی چلنے کا شک بھی ہو جائے گا تو یہ سارے کٹمبھ قبیلے کو ساتھ لے کر کائیں کائیں چیخنا شروع کر دیں گے اکٹھے ہو کر منڈلانے لگیں گے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ امن جو ہے وہ جنگ کی خواہش رکھتے ہوئے قائم ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی وجہ سے شاید یہ انسانوں میں اپنی جگہ بھی نہیں بنا سکے۔ “

عارف کی یہ بات سن کر بہت سی باتیں یاد آ گئیں۔ انسانوں میں بھی ایسے کئی لوگ ہوتے ہیں جو اڑتے تیر پکڑنا چاہتے ہیں۔ ہر دس بارہ دن بعد ایک گولی کا ایٹم بم بناتے ہیں۔ تاریخوں پر تاریخیں دیتے ہیں، جنگوں کے بادل انہیں منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ خواہ مخواہ کے دفاعی تبصرے کیے جاتے ہیں۔ بارڈر پر کریکر بھی چلے تو وہ اپنی سرخ ٹوپی پہن کر ٹی وی پر آ جاتے ہیں۔ روہنگیا، شام، فلسطین کی دہائیاں دیتے ہیں اور گھر میں مرے ایدھی کی لاش کو بھی قابل احترام نہیں سمجھتے۔ یہ عقل مند ہوتے ہیں۔ عین ویسے ہی کایاں جیسے ہمارا ممدوح ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ امن کی صورت میں ان کی جگہ بنے گی ہی نہیں، تو بس الٹی سلٹی ہر بات کیے جاتے ہیں اور بے وقت کے تبصروں سے ماحول گرمائے رکھتے ہیں۔ ہر پندرہ دن بعد نئی آن اور نئی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں اور قوم کا جنگی جنون گرما جاتے ہیں۔ کوے تاریخ نہیں جانتے، ان کا قصور بھی کوئی نہیں، لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں سمجھتے۔ دنیا میں کوئی ایسی قوم کبھی جنگی طور پر کامیاب نہیں ہوئی جو خود سے جنگیں چھیڑنے کا شوق رکھتی ہو۔ جسے بات بات پر ہتھیار باندھ کر لڑنے کا مرض ہو۔ جیتے ہمیشہ وہی ہیں جن پر جنگ مسلط کی گئی ہے۔ ابھی دوسری عالمی جنگ میں دیکھ لیجیے، جرمنی ہو یا جاپان، کسی کے ارمان پورے نہیں ہوئے، روسی جو لڑائی نہیں چاہتے تھے، پوری کوشش کرتے رہے کہ دور رہیں۔ لیکن، جب ایک مرتبہ جنگ سر پر آ گئی تو ایسا لڑے کہ برلن کی دیوار کے سائے میں جا کر دم لیا۔

ہر وقت چوکنا اور محتاط رہنا زندگی کی لطافتوں سے دور کر دیتا ہے۔ کبھی کبھی دل کی سنی جائے، ٹی وی کمپیوٹر کو ہٹائیے ایک طرف، باہر نکلیں، تجزیہ کاروں کو بھلائیں، کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ فضا دیکھ، اور کچھ نہیں تو ہل چلتا ہوا دیکھیے اور دیکھیں کہ پرندے سوندھی مٹی سے کیا کیا نکال جاتے ہیں۔ اور دیکھیے کہ کوووں کا شئیر اپنی محتاط طبیعت کی وجہ سے بہرحال کتنا کم رہتا ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain