مقدس غلاف میں لپٹا ہوا پر اسرار صنم خانہ


یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نظام اور ادارے دونوں مسلسل ارتقاءکے عمل سے گزرتے ہیں ،لہٰذا کسی بھی نظام یا ادارے نے آج تک کامل ہونے کا دعویٰ کیا ہے نہ اس کی کوئی گنجائش ہے۔ اس ضمن میں دینی مدارس میں اصلاحات سے بھی کسی کو انکار نہیں ہے ،مثبت اصلاحات ہونی بھی چاہئیں اور ہو بھی رہی ہیں، چاہے وہ عصری تعلیم کا حصول ہو یا جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ، ہر دو صورتوں میں دینی اداروں کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہے۔مگر اصلاحات کے نام پہ دینی مدارس اور وہاں رائج نظام کے ساتھ بعض لوگ اپنے ذاتی بغض اور عداوت کی بنا پر اصلاحات کا جوراگ الاپ رہے ہیںاور اہل مدارس کی تمام تر دینی خدمات کو یکسر نظر انداز کرکے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ دینی مدارس کا آﺅٹ پٹ کیا ہے؟ یہ سوال اس مفروضے پر مبنی ہے کہ چونکہ دینی مدارس سائنسدان ، ڈاکٹر زاور انجینئرزپیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں ، اسی لئے ان کا آﺅٹ پٹ صفر ہے، لہٰذا ان میں اصلاحات ہونی چاہئیں۔

میرے نزدیک یہ اعتراض سراسر جہالت پر مبنی ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص آغا خان میڈیکل کالج پر یہ اعتراض کرے کہ اس کالج نے آج تک چونکہ ایک بھی الیکٹریکل انجینئر پیدا نہیں کیا یا کوئی شخص کسی انجینئرنگ یونیورسٹی کے بارے میں یہ کہے کہ چونکہ اس یونیورسٹی نے ایک بھی ڈینٹل سرجن پیدا نہیں کیا لہٰذا اس کا آﺅٹ پٹ صفر ہے ، پھر ایسے نام نہاد دانشور کے بارے میں کیا کہا جاسکتاہے، بس اس کی عقل پہ ماتم ہی کیا جاسکتاہے۔ جہاں تک عصری تعلیم کی بات ہے ،اس سے نہ توکسی کو انکار ہے نہ اس سے مفر ممکن ہے، اس کی اہمیت اور ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے۔ چنانچہ دینی مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دی جارہی ہے اوربہت سارے ایسے ماہرین جو مختلف شعبوں مثلا ًفلکیات، قانون، بینکاری ، جدید معاشی مسائل وغیرہ میں آج حوالہ کی حیثیت رکھتے ہیں، انہی دینی مدارس کے گریجویٹس ہیں۔کراچی کے مدارس خصوصاً جامعتہ الرشید میں فلکیات پہ جو تحقیق اب تک ہوئی ہے اور جو ہورہی ہے، بین الاقوامی سطح پر اس کو تسلیم کیا گیاہے، اس کے علاوہ اسلامی بینکاری ، اسلامک فنانس ، بیمہ ، سٹاک ایکسچینج اور اس کے علاوہ جدید مسائل میں جتنا کام اس ملک میں ہوا ہے وہ زیادہ تر انہی دینی مدارس کے فضلا اور محققین کی مرہون منت ہے۔

جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے تو یہ ساری باتیں ان نام نہاد دانشوروں کو بھی معلوم ہیں ،مگر یہ جو دینی مدارس کے طلبا کو عصری اعتبار سے زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں، اس کے پیچھے اصل قضیہ ہی کچھ اور ہے۔ یہ لوگ اصلاحات کے نام پہ مدارس میں اپنی مرضی کا نصاب نافذ کروانا چاہتے ہیں ، ایک ایسا پیراڈائم تشکیل دیناچاہتے ہیں جس میں جہاد دہشت گردی کا مترادف ہو ، جو ایک مخلوط معاشرہ پروان چڑھانے میں رکاوٹ نہ بنتاہو، جس میں شراب کی حلت بے شک بیان نہ کی گئی ہو لیکن اس کی حرمت پہ کوئی بات نہ کی گئی ہو، جس میں زنا کو خالص ذاتی فعل قرار دیکر اس سے صرف نظر کی تعلیم دی جاتی ہو، جس میں ہم جنس پرستی کو ایک انسان کا حق تسلیم کیا گیاہو،جہاں تفریح کے نام پہ ناچ گانا ہو، جہاں حیاباختہ قسم کے مناظر گاہے بگاہے دیکھنے کو ملتے ہوں، تب یہ لوگ مطمئن ہوںگے کہ ہاں اب یہ مدارس جدیددور کے معیار پرپورا اترتے ہیں اور اس کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں لہٰذا ان کی طرف سے ایک عدد قبولیت کی سندعطا کردی جائیگی، تب یہ طبقہ خوش ہوجائیگا۔

اہل فکر ونظر مگر ان کی نیت اور ارادوں سے خوب واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ ادارے دین سے وابستہ تمام شعبوں میں تعلیم دے رہے ہیں اوران کا جو ڈومین ہے وہ اس میں معاشرے کے لئے افرادی قوت پیدا کررہے ہیں۔ چونکہ ان کا کام ڈاکٹرز، انجینئرز یا سائنسدان پیدا کرنا نہیں ہے لہٰذا اس بات کا ان پر اعتراض ہی خالص لغو، فضول اور بے معنی ہے۔ ہاں یہ اشکال عصری تعلیمی اداروں پربنتاہے کہ ستر سال گزرنے کے باوجود وہ اب تک کتنے معیاری سائنسدان پیدا کرسکے،کوئی ایک بھی بین الاقوامی برانڈ جو یہ رجسٹرڈکرواسکے ہوں،سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک کے پرزے تواس ملک میں درآمد کئے جاتے ہیں پھر ان کا کنٹری بیوشن کیا ہے؟ ہمارا جوابی بیانیہ یہی ہے کہ جو آپ کا ڈومین ہے پہلے اس میں تو ڈیلیور کریں، کیا آپ نے کبھی اس بات پہ غور کیا ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وزارت داخلہ کا منصب سنبھال کراور وکالت کے چیمپئن ہوکر عصری تعلیمی اداروں کے گریجویٹس سورہ اخلاص نہیں پڑھ سکتے تو وہاں بھی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ کی اصلاحات کو ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں ؟
ماسوائے ’مقدس غلاف میں لپٹا ہوا پر اسرار صنم خانہ‘….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).