دودھ سے دھلا انسان کہاں سے لائیں؟


پاکستانی معاشرے میں دودھ سے دھلے انسان کی ہمیشہ کھوج جاری رہی ہے۔ اور اسی تلاش میں متعدد بار منتخب وزرائے اعظم کو گھر جانا پڑا کیوں کہ وہ دودھ سے دھلے نہیں تھے ۔ان پر کرپشن کے الزامات لگا کر ان کو بد سے بدنام بنا دیا گیا۔ اگر گرپشن کی بات جائے تو اس پر دہائیوں سے بحث جاری ہے کہ کیا کرپشن سیاسی مسئلہ ہے یا سماجی یا پھر معاشرتی؟ ابھی تک ہم اس بحث اور مباحثے میں الجھے ہوئے ہیں اور ہمارے معاشرے میں یہ بات بھی عام ہے کہ نیچے سے اوپر تک سب کرپٹ ہیں، چپڑاسی سے لے کر وزیر اعظم تک۔ مگر آج تک کسی پر بھی یہ کرپشن ثابت نہ ہو پائی۔ بیچارے سیاستدان کافی سال جیل بھی کاٹ کے آ چکے ہیں، مگر وہ ہمیشہ با عزت بری ہوئے۔ یہاں پر شاید ہی کوئی سیاستدان، وزیر، بیورو کریٹ ہو جس پر کرپشن کا الزام نہ لگا ہو۔ جب سے پاکستان بنا ہے سیاستدانوں پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات لگتے رہے ہیں۔ آئی جے آئی سے لیکر سرے محل، پانامہ، بیرونی فنڈز، اور سیکرٹ فنڈز کی بات کی جاتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر طالع آزما بھی اسی کرپشن کے خاتمے کا سہارا لے کر آتے رہے۔ مگر انہوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ خوب دھوئے۔

یہی رول ماڈل کا سلسلا چلتا رہا۔ نہ اوپر سے کوئی رول ماڈل آیا نہ ہی کوئی نیچے پیدا ہوا۔ ہر کوئی بس سیاستدانوں کو کرپٹ کہتا رہا، مگر جہاں نظر ڈالو کرپشن ہی کرپشن ہے، کوئی پیسے کی کر رہا ہے تو کوئی اختیارات کی، کوئی اخلاقیات کی،کوئی مواد چرا رہا ہے تو کوئی نفع کما رہا ہے اور کوئی ناجائز اختیارات اور ڈندے کا استعمال کر کے ارب سے کھرب پتی بنا جا رہاہے۔ مطلب کے حمام میں سب ننگے ہیں، مگر نام صرف اور صرف سیاستدانوں کا ہی لیا جاتا ہے باقی سارے دودھ کے دھلے ہیں؟ ہمارے ہاں کسی کو کہا جائے کے تم کرپشن کر رہے ہو یا پھر ناجائز منافع کما رہے ہو تو وہ بندہ بغیر کسی شرم و حیا کے فوراً کہہ دے گا کہ فلاں جو منافع کما رہا ہے، کرپشن کر رہا ہے اسے جا کے کہو، اسے پکڑو، میں چھوٹاآدمی ہوں ۔اس لئے مجھے پکڑا جا رہا ہے، جاکے کسی بڑے آدمی کو پکڑ کے دکھاﺅ تو مانوں۔ یہ اصطلاح ہمارے ہاں عام ہے جس کو موقع نہیں ملتا وہی کرپشن نہیں کرتا۔ اگر سیاسی پارٹیوں کو دیکھا جائے تو ہر پارٹی دوسری پارٹی پر الزام لگاتی ہے کہ وہ بھی کرپٹ ہے اس نے بھی مال بنایا ہے اور کرپشن کی ہے۔ اگر اداروں کو دیکھا جائے تو وہاں بھی یہی حال ہے۔ جہاں دیکھو اس کے پاس اپنے لیے صفائیاں موجود ہیں۔ اب دودھ سے دھلا انسان کہاں سے لائیں جو آ کے ہمارے ساتھ ہر قسم کی کرپشن روکنے کی بات کرے۔

اب کریں تو کیا کریں؟ کہاں سے بے مثال اور لاجواب لوگ لائیں جو ہمیں سمجھائیں کہ کسی بھی غلط کام کو روکنے کے لئے ضروری نہیں کہ ہمارے پاس کسی کی مثال ہو۔ اگر مثالیں نہ ہوں گی تو کیا کبھی ہم اچھا کام نہیں کرپائیں گے؟ ہمیں کون سمجھائے کہ کرپشن، کرپشن ہوتی ہے چاہے چھوٹی ہو یا بڑی، پیسوں کی ہو یا اختیارات سے لے کر اخلاقیات کی۔ کسی کام میں کی جائے یا ادارے میں اس کے اثرات منفی ہوں گے جس سے معاشرہ کھوکھلے پن کا شکار ہو گا۔ آج کل کے دور میں رول ماڈل ملنا بہت مشکل ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم خود رول ماڈل بنیں اور ہر برے کام کو دل سے برا سمجھیں۔

اور دودھ سے دھلے انسان کی تلاش کی خواہش چھوڑ کر اسی معاشرے سے کام چلائیں ورنہ یہ دودھ سے دھلا انسان کہیں ہمیں مہنگا نہ پڑ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).