مظہر کلیم اپنے انٹرویو میں ابن صفی سے اپنا تقابل کرتے ہیں


ایکسپریس:۔ اگر کوئی فلم ڈائریکٹر عمران سیریز پر فلم بنانا چاہے تو آپ کے خیال میں کس اداکار کو عمران کا کردار ادا کرنا چاہیے؟

مظہر کلیم:۔ یہ تو فلم بنانے والے ڈائریکٹر پر ہے کہ وہ کس اداکار کو اس فریم میں دیکھتا ہے لیکن میرے خیال میں شاہ رخ خان عمران کے کردار کے لئے پرفیکٹ ہے۔

آئی ایس پی آر والوں نے کہا ”فوج کے خلاف کچھ نہیں لکھنا“

میرے ناولوں کے موضوعات اکثر بین الاقوامی سازشوں اور ملکوں کے مفادات کے خلاف اقدامات کے حوالے سے ہوتے ہیں لیکن میں اپنے ناولوں میں کسی بھی ملک کا اصل نام نہیں لکھتا بلکہ کوڈ نام لکھتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے ناول فوج میں بھی بہت پسندکیے جاتے ہیں، ایک بار ڈائریکٹر آئی ایس پی آر نے مجھ سے رابطہ کیا کہ میں ملنا چاہتا ہوں، میں نے کہا میں خود حاضر ہو جاتا ہوں، جب ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے آپ سے ایک درخواست ہے کہ آپ پاکستانی فوج کے خلاف کچھ نہیں لکھیں گے، میں نے کہا میرے ناولوں میں مقامی فوج کا کبھی کوئی معاملہ ڈسکس نہیں ہوا لیکن اگر کبھی کوئی حوالہ آ بھی جائے تو وہ اچھے انداز میں آئے گا۔

کالونی کے لوگ بھی نہیں جانتے کہ میں مظہر کلیم ایم اے ہوں

میرے قارئین اکثر مجھ سے فرمائش کرتے ہیں کہ میں اپنے بارے میں انہیں کچھ بتاؤں۔ میں اکثر قارئین سے وعدہ بھی کر لیتا ہوں لیکن جان بوجھ کر اپنے بارے میں کچھ نہیں لکھتا، میں جہاں رہتا ہوں اگر اس کالونی کے لوگوں کو ہی یہ پتہ چل جائے کہ میں مظہر کلیم ایم اے ہوں جو جاسوسی ناول لکھتا ہے تو میرا گھر سے نکلنا ہی مشکل ہو جائے۔ میرے پڑھنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر ان میں سے دس فیصد بھی مجھے روک لیں تو میرا سارا دن انہی کے سوالوں کے جواب دینے میں گذر جائے گا۔

جج بچوں کے ادب کا رسیا نکلا

میں ایک کیس کے سلسلہ میں ہائی کورٹ میں پیش ہوا، جب میں نے عدالت میں اپنے دلائل مکمل کر لئے تو جج صاحب کہنے لگے خان صاحب! آپ بچوں کے لئے چھوٹی کہانیاں اب بھی لکھ رہے ہیں؟ میں نے کہا ”جی لکھ رہا ہوں“ تو وہ کہنے لگے آپ کی تحریر کردہ ایک کہانی تھی ”چوہوں کی بارات“ جو آج بھی میرے سرہانے رکھی رہتی ہے میں جب رات کو سونے کے لئے جاتا ہوں تو پہلے وہ کہانی پڑھتا ہوں تو مجھے بڑی خوبصورت نیند آتی ہے کیونکہ آپ کی اس تحریر میں مزاح کا جو انداز ہے وہ بہت ہی شاندار ہے۔

ہر مہینے نیا ناول، بھارت میں پائیریسی ہوتی ہے

ہر مہینے میرا 400 یا 500 صفحات پر مشتمل ایک ناول شائع ہو جاتا ہے اور مہینے میں ایک ناول لکھا بھی جاتا ہے، یہ سلسلہ یوں ہوتا ہے کہ میرے دو ناول اشاعت کے مرحلے میں ہوتے ہیںجبکہ تیسرا چھپ جاتا ہے اس طرح ایک ترتیب چلتی رہتی ہے اور میرے ناول باقاعدگی سے قارئین تک پہنچتے رہتے ہیں۔ شروع میں اپنے ناول میں خود ہی چھاپتا رہا لیکن اب ایک پبلشر کو میں نے سارے حقوق دے دیے ہیں وہی چھاپتے رہتے ہیں، میرا ہر ناول 50 سے 60 ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا ہے اگر ایک ناول دس افراد بھی پڑھیں تو پڑھنے والوں کی تعداد کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ مجھے وہ خطوط بھی آتے رہے کہ دس پندرہ لوگ باقاعدہ چوپال لگا کر میرا ناول ایک آدمی سے سنا کرتے تھے۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں میرے ناول کی فروخت زیادہ ہوتی ہے، انڈیا میں میرے ناول اس طرح جاتے ہیں کہ وہاں کے پبلشر یہاں سے دو تین ناول منگوا کر انہیں اپنے اداروں کی طرف سے چھاپ لیتے ہیں میں اس لئے خاموش رہتا ہوں کہ وہ مصنف کا نام ٹھیک لکھتے ہیں انڈیا میں موجود میرے قارئین کے خطوط سے ہی مجھے پتہ چلتا ہے کہ میرا فلاں ناول وہاں چھپ گیا ہے، میرے خیال میں میرے تقریباً سارے ناول ہی انڈیا میں چھپ چکے ہیں ویسے بھی دنیا میں جہاں جہاں اردو پڑھی جاتی ہے وہاں میرے قاری موجود ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments