مظہر کلیم اپنے انٹرویو میں ابن صفی سے اپنا تقابل کرتے ہیں


مظہر کلیم صاحب کا یہ انٹرویو روزنامہ ایکسپریس میں اتوار 20 دسمبر 2015 کو شائع ہوا تھا۔ انٹرویو جناب احمد رضوان نے لیا تھا۔

النگ پاک گیٹ ملتان میں جاسوسی ادب کے پبلشر کے شو روم کا ایک منظر ملتان کے بیشتر شہریوں کی یاداشت میں محفوظ ہے جہاں ایک قدآور اور وجیہہ آدمی سگریٹ سلگائے، اپنے سامنے کورے کاغذوں کی تہہ جمائے، حیران کن روانی سے لکھے چلا جا رہا ہے یہاں سے گذرنے والا ہر فرد انہیں حیرت سے دیکھتا ہے اور وہ لوگ جو اس وجیہہ آدمی کے نام اور کام سے آگاہ ہیں۔
ان کی حیرانی میں ایک طرح کی سرشاری، تفاخر اور عقیدت بھی دکھائی دیتی ہے کیونکہ یہ وجیہہ آدمی جاسوسی ادب کی دنیا میں افسانوی شہرت رکھنے والے ادیب مظہر کلیم ایم اے ہیں جو اپنے پبلشر کے شو روم میں بیٹھے جاسوسی ادب کی تاریخ مرتب کر رہے ہیں۔

22 جولائی 1942ء میں ملتان کے ایک پولیس آفیسر حامد یار خاں کے ہاں پیدا ہونے والے مظہر کلیم ایم اے نے ابتدائی تعلیم اسی شہر میں حاصل کی۔

1965ء میں ان کی زندگی میں دو اہم موڑ آئے، ایک تو اس سال ان کی شادی برصغیر کے معروف شاعر علامہ اسد ملتانی کے ہاں ہوئی، دوسرا یہ کہ انہوں نے ایک دوست کی فرمائش پر اپنی زندگی کا پہلا جاسوسی ناول ”ماکازونگا“ لکھا (اس انٹرویو میں مظہر کلیم صاحب بتاتے ہیں کہ یہ ناول جناب ابن صفی کے انتقال کے بعد شائع ہوا تھا، اس لئے 1965 میں ناول شائع ہونے والی بات سہو نظر آتی ہے۔ یہ 1980 کی دہائی کا واقعہ دکھائی دیتا ہے: مدیم ہم سب)۔ ان کے پہلے ناول نے جہاں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے وہیں مستقبل میں جاسوسی ادب کے ایک بڑے ادیب کی راہ بھی متعین کر گیا۔ اس کے بعد ان کا ہر ناول ایک معیار قائم کرتا چلا گیا اور ان کے قارئین کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی رہی۔

جاسوسی ادب میں ابن صفی کے بعد مظہر کلیم ایم اے کو جو شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی دوسرا کوئی بھی اس مقام تک نہیں آ سکا گو انہوں نے اپنے ناولوں میں ابن صفی کے معروف کردار ”عمران“ کو بھی زندہ رکھا لیکن اس کردار میں رنگ انہوں نے اپنے بھرے اور ایسے بھرے کہ اب ابن صفی کا کردار عمران منظر سے غائب ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں موجود ان کے قاری، ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ ہماری آج کی اس نشست کا مقصد بھی یہی ہے کہ قارئین سے ان کی ملاقات کرائی جائے، آئیے مظہر کلیم ایم اے سے ملتے ہیں۔


ایکسپریس:۔ سب سے پہلے اپنے خاندانی اور تعلیمی پس منظر کے حوالہ سے بتائیں؟

مظہر کلیم:۔ میرے آباؤ اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا، ہم محمد زئی درانی پٹھان ہیں، افغانستان سے پہلے ہم شورکوٹ آئے، وہاں کچھ عرصہ رہنے کے بعد ملتان میں آباد ہو گئے۔ میرے خاندان کے زیادہ تر لوگ فوج اور پولیس میں ملازم تھے، میرے دادا، والد صاحب اور چچا سبھی پولیس آفیسر تھے لیکن میں اور میرا چھوٹا بھائی ہم دونوں پولیس کی ملازمت میں نہیں گئے، میرا بھائی انجینئر ہے اور میں ایک لکھاری اور وکیل ہوں۔

میں ملتان میں ہی پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ سے حاصل کی۔ 1957ء میں یہاں سے میٹرک کیا اور اس کے ایک سال بعد تک میں اسی سکول میں پڑھاتا رہا بعدازاں میں نے ایمرسن کالج ملتان سے ایف اے اور بی اے کیا، اس دوران ملتان میں پنجاب یونیورسٹی کا کیمپس شروع ہوا تو اس کے پہلے ہی سیشن میں ایم اے اردو کیا۔

ایم اے اردو کے بعد میں مختلف انشورنس کمپنیوں میں کام کرتا رہا، پھر صحافت کی طرف آ گیا جس کا مجھے بہت شوق تھا۔ ان دنوں ملتان سے ایک روزنامہ ”آفتاب“ شائع ہوتا تھا جو یہاں کا بڑا مقبول اخبار تھا، اس اخبار میں، میں نے سوائے کاتب کے تمام عہدوں پر کام کیا، اس دوران میں نے ریسرچ فیچرز لکھے، مضامین لکھے اور 3 سال تک میرا کالم ”تماشا میرے آگے“ بھی روزنامہ ”آفتاب“ کے ادارتی صفحہ پر چھپتا رہا۔ صحافت کے دوران ہی میں نے ایل ایل بی کر لیا تھا، 78ء کے قریب اخبار کی ملازمت چھوڑ کر کل وقتی وکالت شروع کر دی۔

ایکسپریس:۔ اخبار کے لیے لکھتے لکھتے آپ اچانک جاسوسی ادب کی طرف کیسے آگئے؟

مظہر کلیم:۔ جہاں تک لکھنے کی بات ہے تو اس میں میرے والد صاحب کا بہت اہم کردار ہے، میرے والد صاحب حامد یار خان پولیس آفیسر تھے لیکن انہیں مطالعہ کا بہت شوق تھا، وہ دنیا کے ہر موضوع پر کتاب پڑھتے تھے اور اسے اپنی لائبریری میں محفوظ بھی رکھتے تھے۔

والد صاحب ملازمت سے جب بھی گھر آتے تو ہم بھائیوں کے لئے ہمیشہ کتابیں اور رسائل لے کر آتے تھے۔ جب کبھی ان کا تبادلہ ہوتا تھا تو گھریلو سامان کی منتقلی کے لئے جو ٹرک منگوایا جاتا اس میں گھریلو سامان کم اور کتابیں زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں بھی دنیا کے ہر موضوع پر کتاب پڑھنے کے لئے تیار ہوتا ہوں۔ جہاں تک جاسوسی ادب کی طرف آنے کی بات ہے تو یہ کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوا۔

میرے ایک دوست بی اے جمال ہیں، انہوں نے بوہڑ گیٹ میں اپنی ایک لائبریری اور ایک پبلشنگ ہاؤس بنا رکھا تھا، وہ اپنے ادارے کی طرف سے جاسوسی ادب شائع کرتے رہتے تھے لیکن ان کے پاس اچھے لکھاری نہیں تھے جن کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ بک جائیں۔

سو وہ کبھی کہیں سے مسودہ منگواتے، کبھی کسی سے کہانی لیتے، کبھی کوئی انڈیا کا مسودہ چھاپ دیتے لیکن ان کی کتاب بک نہیں رہی تھی، اس دوران ابن صفی صاحب کا انتقال ہو گیا تو مختلف لوگ جعلی ناموں سے ابن صفی بننے کی کوشش کر رہے تھے، کوئی این صفی تھا، کوئی نجمہ صفی تو کوئی کسی اور نام سے سامنے آ گیا، میرے یہ دوست بھی ان دنوں ایسی ہی کہانیاں چھاپ رہے تھے۔ ایک دن وہ پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئے اور اپنے مسائل کا اظہار کیا تو میں نے کہا میں آپ کو ناول لکھ دیتا ہوں شرط صرف اتنی ہے کہ آپ میرے نام سے شائع کریں (ناول ماکازونگا کے پیش لفظ میں مظہر کلیم صاحب یہ لکھتے ہیں کہ یہ ناول انہوں نے این صفی کے نام سے لکھا تھا: مدیر ہم سب)۔

انہوں نے فوراً حامی بھر لی تو میں نے اپنا پہلا جاسوسی ناول ”ماکا زونگا“ لکھا جو افریقی قبائل کے پس منظر میں تھا، وہ پہلا ناول چھپا تو اسے اتنی پذیرائی ملی کہ وہ دن ہے اور آج کا دن میری مقبولیت اسی طرح برقرار ہے۔ اس دوران میں نے جتنی بھی کوشش کی کہ میں جاسوسی ادب سے بھاگ جاؤں لیکن پبلشرز اور قاری مجھے نہیں چھوڑتے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments