لاہور پولیس الرٹ ہے


لاہور میں پی ایس ایل فائنل کی تیاری ہے۔ دہشتگردی کا خطرہ بہت ہے۔ گیارہ ضلعوں کی پولیس طلب کر لی گئی ہے لیکن دہشت گرد ڈان ہاتھ نہیں آ رہا ہے۔ مگر ہماری پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہے۔ اس نے ابتدائی تحقیق کر لی ہے کہ خودکش حملے کا خدشہ ہے اور خودکش بمبار عام طور پر پندرہ سے اٹھارہ سال کا لڑکا ہوتا ہے۔

شہر میں صورت حال یہ ہے کہ لاہور پولیس اس وقت پندرہ سے اٹھارہ سال کی عمر کے سٹوڈنٹس کی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کے انجن نمبر چیک کر رہی ہے۔ کل سہ پہر ہمارے نزدیکی چوک پر ایک سٹوڈنٹ کو روک کر ایک حوالدار صاحب نے اس سے دریافت کیا کہ موٹر سائیکل چوری کی تو نہیں ہے۔ سٹوڈنٹ نے جرم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حوالدار صاحب نے موٹر سائیکل کے کاغذات طلب کیے اور رجسٹریشن بک پر درج انجن نمبر غور سے پڑھا۔ پھر سٹوڈنٹ کو کہا کہ اپنی موٹر سائیکل کا انجن نمبر بتاؤ۔ سٹوڈنٹ نہایت شر پسند تھا۔ کہنے لگا کہ مجھے اپنا رول نمبر زبانی یاد نہیں تو انجن نمبر کہاں سے یاد ہو گا، خود ہی دیکھ لیں۔ حوالدار صاحب نے حکم دیا کہ یاد نہیں تو پھر انجن پر سے پڑھ کر بتاؤ۔ سٹوڈنٹ نے کہا کہ اگر میں نے غلط بتا دیا تو آپ کو کیسے پتہ چلے گا؟ حوالدار صاحب مسکرائے اور بولے کہ ہم چہرہ دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ بندہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔ اب موٹرسائیکل کے نیچے منہ ڈال کر انجن نمبر پڑھو۔

ویسے دہشت گردی روکنے کے لئے سٹوڈنٹس پر یہ کریک ڈاؤن بالکل درست ہے۔ آپ نے شاید نوٹ کیا ہو کہ خود کش بمبار بھی اسی عمر کے ہوتے ہیں۔ اب ہو سکتا ہے کہ بمبار کتابوں کی بجائے اپنے سٹوڈنٹ بیگ میں دھماکہ خیز مواد لے کر اپنی کلاس میں جا رہے ہوں؟ اور کتاب بھی ہو تو یہ بات بھی کم خطرناک نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کئی کتابیں بم سے بھی زیادہ تباہکاری پھیلاتی ہیں۔

تو صاحبو، اگر کرکٹ فائنل کو دہشت گردی سے بچانا ہے تو کسی سٹوڈنٹ کو مت بخشو۔ کل لاہور کی سڑک پر کسی سٹوڈنٹ کو نکلنے ہی نہ دو۔

ہمارے پاس اب جدید امریکی ٹیکنالوجی تو ہے نہیں جو ہر فون کو سنیں اور زمین کے چپے چپے کو مانیٹر کریں۔ لیکن خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں پراسرار مشرقی علوم کے ماہرین موجود ہیں۔ فائنل کرانے کے لئے ان کی خدمات سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

چیک پوسٹوں پر علم جفر اور علم ہندسہ کے ماہرین کو تعینات کیا جا سکتا ہے جو رجسٹریشن نمبر اور انجن نمبر کا حساب لگا کر فوراً چوکی انچارج کو بتا دیں کہ یہ بندہ دہشت گرد ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اسی طرح مرکزی کنٹرول سینٹر میں علم نجوم کے ماہرین کو تعینات کیا جا سکتا ہے جو کہ بتا دیں گے کہ دہشت گرد شمال سے آئیں گے یا جنوب سے یا مشرق مغرب سے۔

ہر تھانے میں طوطے سے فال والے پروفیسر صاحب اور پالمسٹ کو تعینات کیا جانا چاہیے۔ دہشت گرد نہایت سخت جان ہوتے ہیں۔ تشدد کے ذریعے ان سے تفتیش کے ناکام ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ اس لئے تفتیش میں فال نکالنے والے طوطے کا استعمال کر کے یا ہاتھ کی لکیروں کا مطالعہ کر کے یہ جانا جا سکتا ہے کہ یہ مشکوک افراد اگلے چند دنوں میں دہشت گردی تو نہیں کریں گے۔ چیکنگ پوائنٹس پر علم جفر اور علم ہندسہ کے ماہرین کو تعینات کیا جا سکتا ہے جو کہ گاڑیوں کے انجن نمبر اور چیسس نمبر کا حساب جوڑ کر بتا سکتے ہیں کہ کہیں یہ گاڑی کہیں دہشت گردی میں تو استعمال نہیں ہو گی۔

لیکن سب سے اہم بات یہی ہے کہ باقی سارے کام چھوڑ کر سٹوڈنٹس کو پکڑا جائے۔ دہشت گرد اسی عمر کے ہوا کرتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar