علم کی قزاقی


ایسے دور میں جب بوتلوں میں منرل واٹر کے نام پر نلکے کا پانی، دودھ کے نام پر کیمیکل اور دواؤں کے نام پر زہر کھایا جا رہا ہے۔ اصلی کتابوں کی جعلی اشاعت کی وبا پر بات کرنا نری عیاشی ہے۔ پر آج عیاشی ہی سہی۔

دنیا میں اس وقت بلا اجازت شایع ہونے والی کتابوں کے جعلی ایڈیشنز سے کتابوں کی صنعت کو سالانہ تقریباً پانچ ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اور اس میں سے تین ارب ڈالر تک کا نقصان صرف امریکی پبلشرز کو درپیش ہے۔ مختلف ممالک میں نافذ انٹلکچوئیل پراپرٹی رائٹس قوانین اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ضابطے بھی جعلی کتابوں کے کاروباریوں اور پھیلائے جال کا کچھ بال بیکا نہیں کر پائے۔

دھونس، دھمکی، مقدمہ کوئی شے بھی بہت زیادہ کارگر نہیں۔ مگر رونے پیٹنے واویلے کے ساتھ ساتھ مرض کے بنیادی اسباب جان کر انھیں کنٹرول کرنے کی کوششیں بھی آٹے میں نمک جیسی ہیں۔

پاکستانی قارئین کے لیے یہ موضوع یوںاہم ہونا چاہیے کہ اس وقت پاکستان کی پبلشنگ دنیا کو بین الاقوامی پبلشر برادری ملکی و غیر ملکی جعلی کتابوں کے سب سے بڑے اشاعت گھر کے طور پر جانتی ہے (اس بدنامی کے پیچھے یہودی لابی اور دیگر پاکستان دشمن قوتیں اور سی پیک سے جلنے والے کتنے ہیں یہ میں نہیں جانتا)۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں نہ صرف مقامی طور پر کتابوں کی دو نمبر اشاعت ملک و قوم کی علمی خدمت میں دن رات کوشاں ہے بلکہ مشرقِ وسطی، افریقہ حتی کہ بھارت کی بھی علمی پیاس بذریعہ تھرڈ پارٹی ایکسپورٹ بجھا رہی ہے۔ اور یہ سب اس کاپی رائٹ ایکٹ مجریہ انیس سو باسٹھ کے سائے تلے ہو رہا ہے جس کے مطابق جعلی ایڈیشن کی اشاعت، تقسیم، فروخت اور درآمد و برآمد پر تین تا سات برس قید اور ایک تا تین لاکھ جرمانے کی سزا ہے۔ پچھلے چون برس میں اس قانون کے تحت ایک عدد پبلشر کو پندرہ ہزار روپے جرمانہ ہو پایا اور ایک عدد پبلشر کو قید کی سزا ملی مگر وہ چند ماہ بعد ضمانت پر رہا ہو کر پھر اپنے کاروبار میں منہمک ہو گیا۔ کچھ دیوانے مصنفین پھر بھی عدالت کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔

مغرب میں چونکہ کتاب بینی کا شوق عام ہے اور مصنفین کو بھی بھاری رائلٹی ملتی ہے لہذا ان کا شور مچانا سمجھ میں آتا ہے کہ کتاب کی ہر جعلی کاپی ان کے کاروبار اور رائلٹی پر ڈاکہ ہے۔ مگر پاکستان میں علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کسی اور اشاعتی ادارے یا مصنف کو اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں کہ جعلی کتابوں کا کاروبار کتنا سود مند یا نقصان دہ ہے۔ بیشتر مصنفین کو رائلٹی ہی نہیں ملتی۔ اکثر سادہ لوحوں کو چنٹ پبلشر چند لاکھ روپے کے یکمشت معاوضے کا کلوروفارم سونگھا کر تاحیات حقوق اپنے نام کروا لیتے ہیں۔ کوئی مصنف اگر رائلٹی پر ہی بضد رہے تو پھر اس کا دماغی علاج بھی پبلشرز کے پاس ہے۔ رائلٹی ملتی بھی ہے تو پہلے ایڈیشن کی۔ اس کے بعد کتاب جانے اور پبلشر۔

میرے علم میں تو صرف ایک مثال ہے عبید اللہ علیم کی۔ جس پبلشر نے ان کے دو شعری مجموعے ’’چاند چہرہ ستارہ آنکھیں‘‘ اور ’’ویران سرائے کا دیا‘‘ ایک ایک ایک ہزار کی تعداد میں کئی سال پہلے چھاپے ان کے پہلے ایڈیشن کی رائلٹی تو واقعی علیم صاحب کو ان کی زندگی تک ملی۔ مگر ان کی وفات کے بعد ان کے دونوں شعری مجموعے اتنے بابرکت ثابت ہوئے کہ پچھلے پچیس برس میں پرانے اوریجنل ایڈیشن کے نام پر چھپنے والی ایک ہزار کاپیاں کم ازکم دس ہزار گھروں میں دستیاب ہیں اور مارکیٹ میں بھی تازہ کاغذ اور چھپائی کی بھینی بھینی خوشبو سمیت موجود ہیں۔ پبلشر کے ریکارڈ میں آج بھی صرف ایک ایڈیشن ہے اور وہ بھی ایک ہزار کاپیوں کا۔ اب یہ چمتکاری اوریجنل پبلشر نے دکھائی یا کتابی قزاقوں نے؟ بوجھو تو جانیں۔

اس ملک میں تو ’’آگ کا دریا‘‘ والی عینی آپا، فیضؔ اور فرازؔ نہ بچ سکے تو عام مصنف کس کھیت کی مولی ہے۔ ایسے حالات میں مصنفین کو کیا پڑی کہ وہ اپنے لیے انصاف طلب کریں یا شور مچائیں۔ ان کی مثال تو اس بھینس کی ہے جسے چور کھول کے لے جانے لگا تو پیچھے سے مالک نے شور مچا دیا بھینس بھینس چوروں سے خبردار۔ بھینس نے پلٹ کر کہا تو بھی تو دودھ کے بدلے صرف چارہ ہی دیتا ہے۔ چور بھی بھوکا نہیں ماریں گے۔

پاکستان میں کتابوں کی اشاعتی چوری کے موضوع پر محض ایک پریزنٹیشن میری نظر سے گذری۔ اسے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنس کے خالد محمود اور بلوچستان یونیورسٹی کے محمد الیاس نے تیار کیا۔ اس پریزنٹیشن کے اعتبار سے کتابوں کی جعلی اشاعت کی سب سے بڑی وجہ معیاری کتابوں کی قیمت کا ایک عام آدمی کی دسترس سے باہر ہونا ہے۔ پھر ہینگ اور پھٹکڑی ڈالے بغیر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی خواہش ہے۔

کئی کتابوں کے جعلی ایڈیشن اس لیے بھی چھاپے جاتے ہیں کیونکہ اوریجنل ایڈیشن نایاب ہوتا ہے مگر اس کی ضرورت نایاب نہیں ہوتی۔ ایک وجہ کئی اسکول سسٹمز کے نصاب میں غیر ملکی کتابوں کی شمولیت ہے۔ والدین جو پہلے ہی سے بھاری فیسوں کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں وہ اوریجنل کتاب کے بجائے اس کی کاپی سستے کا سوچ کر خرید لیتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ یہ سستی بھی ہو۔ کئی اسکولوں نے اس کا توڑ یہ نکالا ہے کہ کتابیں کاپیاں بھی وہی فراہم کریں گے اور اگر باہر سے خریدنی ہیں تو صرف مخصوص کتاب فروشوں سے ہی خریدی جائیں (یہ ایک الگ طرح کا گٹھ جوڑی کاروبار اور تفصیل کا متقاضی ہے)۔

غیر ملکی کتابوں کی مقامی پائریسی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مقامی اشاعت کے حقوق بہت کم غیر ملکی ادارے دیتے ہیں اور اکثر کڑی شرائط پر۔

ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غیر ملکی کتابوں کی درآمد کے قوانین سہل نہیں اور انھیں ہر پبلشر درآمد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اگرچہ بھارت میں شایع ہونے والی سائنسی و طبی موضوعات پر شایع ہونے والی کتابیں اس مانگ کو پورا کر سکتی ہیں۔ مگر دونوں ممالک آلو پیاز اور کیلے وغیرہ کی تجارت تو کر سکتے ہیں لیکن اخبارات، رسائل اور کتابوں کی دو طرفہ تجارت دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹس کو اس وقت مناسب نہیں لگتی۔ مبادا ایک دوسرے کی کتابیں اور اخبارات پڑھ کے کہیںذہن نہ صاف ہونے لگ جائیں۔

کتابوں کے جعلی ایڈیشنز کی اشاعت سے سب سے زیادہ فائدہ بلاشبہہ درسی کتابوں کے کاروبار کا ہے کیونکہ سب سے زیادہ ایڈیشنز بھی ان کتابوں کے شایع ہوتے ہیں۔ درسی مواد کی مانگ ہمیشہ زیادہ اور رسد ہمیشہ کم رہتی ہے۔ اس کے بعد جعلی ایڈیشن کا فائدہ کتب فروش کو ہے اور پھر کہیں جا کے اگر تھوڑا بہت مالیاتی فائدہ ہے تو کتاب خریدنے والے کو۔

کتابوں کی جعلی اشاعت ختم تو نہیں البتہ کم ہو سکتی ہے اگر نصابی کتابوں کی قیمتیں سبسڈی دے کر کم رکھنے اور ضروری غیر ملکی نصابی کتابوں کے مقامی اشاعتی حقوق کے حصول میں حکومتیں اپنا موثر کردار ادا کریں۔ اس سلسلے میں نیشنل بک فاؤنڈیشن جیسے اداروں کے مینڈیٹ اور دائرہِ اشاعت میں اضافے سے بھی کچھ فائدہ ہو سکتا ہے۔ کتابیں درآمد کرنے کے قوانین کو بھی زیادہ آسان بنانے سے فرق پڑ سکتا ہے۔ اور سب سے زیادہ فرق کاپی رائٹس اور سائبر قوانین کے موثر اور مسلسل نفاز سے آ سکتا ہے۔ مگر بانوے فیصد لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان میں کاپی رائٹس کے قوانین موجود ہیں۔

اگر مصنفین کو معقول و منصفانہ رائلٹی ملنے کا کوئی قانونی و انتظامی ڈھانچہ بن سکے تو اس سے حوصلہ پا کر ایسے لوگ بھی اپنے تصورات و خیالات و تحقیق شایع کروانے میں دلچسپی لیں گے جنہوں نے آج تک مصنفین کو ہاتھ پھیلائے شکائیتی ٹٹو کے روپ میں ہی دیکھا ہے۔ اور اب تو انٹرنیٹ پر ڈجیٹل پائریسی کے روپ میں ایک اور بے لگام کتابی دہشتگردی شروع ہو چکی ہے۔

سنا ہے دو ہزار چار سے کسی سرکاری پاکستان انٹلکچوئل پراپرٹی رائٹس آرگنائزیشن (پپرو) کا بھی وجود ہے۔ کیا کسی کو اس کے دفتر کا پتہ یا فون نمبر یا اہلکاروں کا نام معلوم ہے؟ پپرو تم کہاں ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).